قدرت کا قانون
ہیری ایمرسن فاسڈک نے زندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے— کوئی بھاپ یا گیس اس وقت تک کسی چیز کو نہیں چلاتی جب تک کہ اس کو مقید نہ کیا جائے۔ کوئی نیاگرا اس وقت تک روشنی اور طاقت میں تبدیل نہیں ہوتا جب تک اس کو سرنگ میں داخل نہ کیا جائے۔ کوئی زندگی اس وقت تک ترقی نہیں کرتی جب تک اس کو رخ پر نہ لگایا جائے اور اس کو وقف نہ کیا جائے اس کو منظم نہ کیا جائے:
No steam or gas ever drives anything until it is confined. No niagara is ever turned into light and power until it is tunnelled. No life ever grows until it is focused, dedicated, disciplined.
Harry Emerson Fosdick, Living Under Tension
قدرت کا ایک ہی قانون ہے جو زندہ چیزوں میں بھی رائج ہے اور غیر زندہ چیزوں میں بھی۔ وہ یہ کہ ہر مطلوب چیز کو حاصل کرنے کی ایک قیمت ہے ، جب تک وہ قیمت ادا نہ کی جائے مطلو ب چیز حاصل نہیں ہوتی۔
یہاں ابھرنے کے لیے پہلے دبنا پڑتا ہے۔ یہاں ترقی کے درجہ تک پہنچنے کے لیے بے ترقی پر راضی ہونا پڑتا ہے۔ یہاں دوسروں کے اوپر غلبہ حاصل کرنے کے لیے دوسروں سے مغلوبیت کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔
ایک بات بظاہر سادہ سی ہے مگر انسان اپنی عملی زندگی میں اکثر اسے بھول جاتا ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں ہیں بلکہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں ہیں۔ جب صورت حال یہ ہے کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے تو ہمارے لیےاس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم خدا کے بنائے ہوئے قوانین کو جانیں او ر اس کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کریں۔ اس کے سوا کسی اور تدبیر سے یہاں ہم اپنے لیے جگہ حاصل نہیں کرسکتے۔
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان پر یہ مراحل نہ گزریں اور اس کے بغیروہ ترقی اور کامیابی کے مقام کو پالیں تو ان کو اپنی پسند کے مطابق دوسری دنیا بنانی پڑے گی۔ کیوں کہ خدا نے جو دنیا بنائی ہے اس میں تو ایسا ہوناممکن نہیں۔