اور تالا کھل گیا
اس کی ناکام کوشش اب جھنجھلاہٹ میں تبدیل ہوچکی تھی۔ وہ کافی دیر سے تالے کے ساتھ زور آزمائی کررہا تھا۔ ’’ کنجی تو بظاہر صحیح ہے۔ یقیناً تالے کے اندر کوئی خرابی ہے جس کی وجہ سے تالا کھل نہیں رہا‘‘ اس نے سوچا۔ اس کا غصہ اب اس درجہ پر پہنچ چکا تھا کہ اگلا مرحلہ صرف یہ تھا کہ تالا کھولنے کے لیے وہ کنجی کے بجائے ہتھوڑے کا استعمال شروع کردے۔
اتنے میں اس کے میزبان رفیق احمد آگئے۔ ’’کیا تالا نہیں کھل رہا‘‘ انہوں نے کنجی اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا آپ کنجی غلط لگا رہے تھے۔ اصل میں آج ہی میں نے اس کا تالاتبدیل کردیا ہے۔ مگر میں نئی کنجی چھلے میں ڈالنا بھول گیا۔ اس کی کنجی دوسری ہے‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے جیب سے دوسری کنجی نکالی اور دم بھر میں تالا کھل چکا تھا۔
زمانہ جب بدلتا ہے تو ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہوجاتا ہے جو ماضی کی صلاحیت کی بنیاد پر حال کی دنیا میں اپنی قیمت وصول کرنا چاہیں۔ نئے زمانہ میں زندگی کے دروازوں کے تمام تالے بدل چکے ہوتے ہیں۔ مگر وہ پرانی کنجیوں کا گچھا لیے ہوئے نئے تالوں کے ساتھ زور آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ اور جب ان کی پرانی کنجیوں سے نئے تالے نہیں کھلتے تو کبھی تالا بنانے والے پر اور کبھی سارے ماحول پر خفا ہوتے ہیں۔ حالانکہ جب تالے بد ل چکے ہوں توایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ پرانی کنجیوں سے نئے تالے کھل جائیں۔
حقیقت نگاری کے دور میں جذباتی تقریریں اور تحریریں، اہلیت کی بنا پر حقوق حاصل کرنے کے دور میں رزرویشن کے مطالبے، تعمیری استحکام کے ذریعہ اوپر اٹھنے کے دور میں جلسوں اور جلوسوں کے ذریعہ قوم کا مستقبل برآمد کرنے کی کوشش، سماجی بنیادوں کی اہمیت کے زمانہ میں سیاسی سودے بازی کے ذریعہ ترقی کے منصوبے، یہ سب اسی کی مثالیں ہیں۔ یہ ماضی کے معیاروں پر حال کی دنیا سے اپنے لیے زندگی کا حق وصول کرنا ہے جو کبھی کامیاب نہیںہوسکتا۔ ایسے لوگوں کا انجام موجودہ دنیا میں صرف یہ ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہو کر رہ جائیں۔ جو کچھ ان کو بربنائے حق نہیں ملا ہے اس کو سمجھیں کہ وہ بربنائے ظلم ان کو نہیں مل رہا ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے منفی ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جائیں۔