خود جاننا پڑتا ہے
پچاس سال پہلے دیا سلائی اور لائٹر کا رواج نہیں تھا۔ دیہات کے لوگ ایک دوسرے کے گھروں سے آگ مانگ کر اپنا چولھا گرم کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ کا واقعہ ہے کہ ایک خاتون اپنے پڑوسی کے گھر گئیں اور پوچھا کہ کیا آگ ہے۔ پڑوسی خاتون بولیں’’ہاں بہن، طاق پر رکھی ہے‘‘یہ خاتون بڑھاپے کی وجہ سے بہت کم سنتی تھیں۔ اس بنا پر ان کے لیے اس غیرمتعلق جواب کا عذر تھا۔ مگر بہت سے لوگ جن کے آنکھ اور کان پوری طرح درست ہوتے ہیں وہ بھی اکثر اس سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوتے۔
جنرل جے این چودھری نے جنوری 1971 میں ’’قومی تحفظات کے مسائل ‘‘پر لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا کہ دفاع میں خبر رسانی (انٹیلی جنس)کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ واقعہ سے پہلے صحیح علم ضروری ہے۔ تاکہ دشمن کی چال کو ذمہ دار لوگ اچھی طرح سمجھیں اور جو فیصلہ کریں خوب سمجھ کر کریں۔ انٹیلی جنس کی سروس کا بہتر نہ ہونا بہت خطرناک ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے انٹیلی جنس کی ناکاکردگی کی ایک دلچسپ مثال دی۔ انھوں نے بتایا کہ 1961 میں جب ہندوستان نے گوا میں فوجی کاروائی کی تو اس کے دوران جنوبی کمان سے وائرلیس پر پوچھا گیاکہ کیا تم پرتگالیوں کےپاس آرمرڈکار اور ٹینک ہیں۔ وہاں سے جواب آیا—’’ٹینک تو ٹھیک ہیں۔ مگر ان میں صرف پندرہ ہزار گیلن پانی کی گنجائش ہے‘‘۔ سوال جنگی ٹینک کے بارے میں تھا اور جواب پانی کے ٹینک کے بارے میں ملا۔
کوئی اجتماعی کام اسی وقت صحیح طور پر انجام پاتا ہےجب کہ اس سے متعلق تمام لوگ اپنے حصہ کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دے رہے ہوں۔ اجتماعی کام ہمیشہ مشترک ذمہ داری پر ہوتا ہے۔ اگر ہر ایک اپنی انفرادی ذمہ داری کو ٹھیک ٹھیک ادا کر رہا ہو تو گاڑی کامیابی کے ساتھ چلتی رہے گی۔ اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے حصہ کا کام کرنے میں کوتاہی کی تو وہیں گاڑی ٹھپ ہو جائے گی۔ کیونکہ کوئی شخص دوسرے کے حصہ کا کام نہیں کر سکتا۔
نیز یہ کہ ہر بات بتائی نہیں جا سکتی۔ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو متعلقہ شخص کو خود جاننا پڑتا ہے۔ ہر شخص کو اتنا ذمہ دار اور باشعور ہونا چاہیے کہ وہ بتائے بغیر جان لے کہ کسی معاملہ میں اس کو کس قسم کا حصہ ادا کرنا ہے یا کسی وقت خاص میں اجتماعیت اس سے کسی چیز کا تقاضا کر رہی ہے۔ گویا ایک فوجی افسر جب اپنے ساتھی سے’’ٹینک‘‘کے بارے میں پوچھے تو ساتھی کو وضاحت کے بغیر یہ جاننا چاہیے کہ پوچھنے والا جنگی ٹینک کے بارے میں پوچھ رہا ہے،نہ کہ پانی کے ٹینک کے بارے میں۔