شبہات
1950 کے لگ بھگ کی بات ہے۔ میں اعظم گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر ٹکٹ خرید رہا تھا۔ ٹرین پلیٹ فارم پرکھڑی تھی اورچھوٹنے کے قریب تھی کہ ایک دیہاتی آدمی ٹکٹ لینے کے لیے آگیا۔ اس کو جس مقام تک جانا تھا اس کا کرایہ چند روپیہ ہوتا تھا۔ اس نے اپنی بندھی ہوئی مٹھی کھڑکی کے اندر ڈال کرکھولی تو اس میں سب سے چھوٹی ریز گاری تھی۔ بابو اس کو دیکھ کر بگڑ گیا اور بولا : روپیہ لے آؤ ، اتنی سب ریز گاری ہم کب تک گنتے رہیں گے۔ مجھے غریب دیہاتی پر رحم آیا۔ میں نے فوراً جیب سے نوٹ نکالے اور اس سے کہا کہ تم یہ نوٹ لے لو اور ریز گاری مجھے دے دو۔ مگر دیہاتی نے میری پیش کش قبول نہ کی۔ اس نے وحشت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے ایک طرف چلا گیا۔ میں تیزی سے چل کر ٹرین پر سوار ہو گیا۔ تاہم میری نظریں اس دیہاتی کا ناکام تعاقب کرتی رہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ دیہاتی وقت پر ٹکٹ نہ لے سکا اور وہ ٹرین اسے چھوڑ دینی پڑی۔
دیہاتی آدمی نے میری پیش کش کیوں قبول نہ کی۔ اس کی وجہ ’’ شبہ ‘‘ہے۔ اس نے سمجھا کہ میں اس کی کم زوری سے فائدہ اٹھا رہا ہوں اور اپنے خراب سکّوں کو اس کی ریز گاری سے بدل لینا چاہتا ہوں۔ یہ شبہ اس کے ذہن پر اتنا چھایا کہ وہ اپنی ریز گاری کو میرے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہو سکا یہاں تک کہ اس کی گاڑی اس سے چھوٹ گئی۔
یہی آج ہمارے سماج کی عام حالت ہے ، ہر آدمی دوسرے آدمی کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہر آدمی دوسرے کو بے بھروسہ سمجھ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پورے سماج میں ایک دوسرے کے خلاف بے اعتمادی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ ہر آدمی اپنے آپ کو بہت سے ممکن فائدوں سے محروم کیے ہوئے ہے۔ کیونکہ اکثر کام کرنے کے لیے کئی آدمیوں کا تعاون ضروری ہوتا ہے اور شبہات کی فضا نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا امکان ہی ختم کر دیا ہے۔
شبہ سے شبہ جنم لیتا ہے اور اعتماد سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگیں تو جواب میں اس کے اندر بھی آپ کے خلاف شبہات پیدا ہوں گے اور دونوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اس کے بر عکس، اگر آپ اس کے ساتھ اعتماد کا معاملہ کریں تو اس کے دل میں بھی آپ کے بارے میں اعتماد پیدا ہو گا اور دونوں ایک دوسرے سے قریب ہوتے چلے جائیں گے۔
جو ’’انسان ‘‘ ایک جسم کے اندر ہے وہی انسان دوسرے جسم کے اندر بھی ہے۔ مگر آدمی اکثر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ خود کچھ اور ہے اور دوسرا کچھ اور۔