پانے سے پہلے
انگریزی کا مقولہ ہے کہ ہم دیتے ہیں تب ہی ہم پاتے ہیں۔
In giving that we receive
دنیا کے بنانے والے نے دنیا کا یہ قانون مقرر کیا ہے کہ یہاں جودیتاہے وہی پاتا ہے جس کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو اس کے لیے پانا بھی اس دنیا میں مقدر نہیں۔
ہمارے چاروں طرف کی دنیا میں خدا نے اس اصول کو انتہائی کامل شکل میں قائم کررکھا ہے یہاں ہر چیز کو اگرچہ اپنے وجود کو قائم کرنے کے لیے دوسروں سے کچھ لینا پڑتا ہے ، مگر ہر چیز کا یہ حال ہے کہ وہ جتنا لیتی ہے اس سے زیادہ وہ دینے کی کوشش کرتی ہے۔
درخت کو لیجئے۔ درخت زمین سے پانی اور معدنیات لیتا ہے۔ وہ ہوا سے كاربن ڈائي آكسايڈ لیتا ہے۔ وہ سورج سے حرارت لیتا ہے اور اس طرح پوری کائنات سے اپنی غذا لیتے ہوئے اپنے وجود کو کمال کے درجہ تک پہنچاتا ہے۔ مگراس کے بعد وہ کیا کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کا پورا وجود دوسروں کے لیے وقف ہوجاتا ہے۔ وہ دوسروں کو سایہ دیتا ہے۔ وہ دوسروں کو لکڑی دیتا ہے۔ وہ دوسروں کو پھول اور پھل دیتا ہے۔ وہ ساری عمر اسی طرح اپنے آپ کو دوسروں کے لیے وقف رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ ختم ہوجاتا ہے۔
یہی حال کائنات کی ہر چیز کا ہے۔ ہر چیز دوسروں کو دینے اور دوسروں کو نفع پہنچانے میں مصروف ہے۔ سورج ، دریا، پہاڑ، ہوا ہر چیز دوسروں کونفع پہنچانے میں لگی ہوئی ہیں۔ کائنات کا دین نفع بخشی ہے،نہ کہ حقوق طلبی۔
اس دنیا میں صرف ایک ہی مخلوق ہے جو دینے کے بجائے لینا چاہتی ہے۔ اور وہ انسان ہے۔ انسان یک طرفہ طور پر دوسروں کو لوٹتا ہے، وہ دوسروں کو دیئے بغیر دوسروں سے لینا چاہتا ہے۔ وہ نفع بخش بنے بغیر نفع خور بننا چاہتا ہے۔
انسان کی یہ روش خدا کی اسکیم کے خلاف ہے۔ وہ کائنات کے عام مزاج سے ہٹی ہوئی ہے۔ یہ تضاد ثابت کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے موجودہ دنیامیں کامیابی مقدر نہیں۔ موجودہ دنیا میں کامیابی صرف ان لوگوں کو مل سکتی ہے جو وسیع تر کائنات سے اپنے کو ہم آہنگ کریں۔ جو دینے والی دنیا میں خود بھی دینے والے بن کر رہیں، نہ کہ دینے والی دنیا میں صرف لینے والے۔