حقیقت پسندی

امریکا نے اگست 1945 میں اپنے دو ایٹم بم جاپان میں گرائے۔ اس کے نتیجہ میں جاپان تہس نہس ہو کر رہ گیا۔ مگر جاپانیوں کو اس پر غصہ نہیں آیا۔ کیونکہ امریکیوں کی کارروائی یک طرفہ نہیں تھی۔ بلکہ و ہ جاپان کی متشددانہ کارروائی کے جواب میں کی گئی — جاپانیوں کا یہی حقیقت پسندانہ مزاج ہے جس نے انہیں موجودہ زمانے میں غیر معمولی ترقی کے مقام تک پہنچایا ہے۔

امریکا نے جاپان کے دو بڑے صنعتی شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔ چند منٹ کے اندر دونوں آباد شہر عظیم الشان کھنڈر بن گئے۔ ان میں سے ہر ایک شہر 10 میل سے زیادہ بڑے رقبہ میں بسا ہوا تھا مگرجب ان پر ایٹم بم گرا تو یہ حال ہوا کہ انسان ، حیوان ، درخت سب جل بھن کر رہ گئے۔ ڈیڑھ لاکھ آدمی مرگئے۔ دس ہزار آدمی ایسے تھے جو حادثہ کے بعد فوراً بخارات میں تبدیل ہوگئے۔ آج یہ دونوں شہر شان دار طور پر دوبارہ آباد ہوچکے ہیں۔ چوڑی سڑکیں، کشادہ مکانات ، جگہ جگہ پارک اور باغ نے شہر کو بالکل نیا منظر عطاکیا ہے۔ اب شہر میں صرف ایک ٹوٹی ہوئی عمار ت باقی ہے جو دیکھنے والوں کو یاد دلاتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اس شہر پر کیسی قیامت آئی تھی۔

ہندوستان ٹائمس (نئی دہلی) کے ایڈیٹر مسٹر خوشونت سنگھ جاپان گئے تھے۔ اپنے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ میں نے جاپان میں ایک بے حد عجیب بات دیکھی۔ جب کہ بقیہ دنیا نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے واقعات کو بہت بڑے پیمانہ پر امریکا کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا ہے ، خود جاپانی ان واقعات کو امریکا کے خلاف نہیں لیتے۔ خوشونت سنگھ نے اپنے جاپانی رفیق سے اس کی بابت سوال کیا تو خلاف توقع اس نے نرم لہجہ میں کہا:

We hit them first at Pearl Harbour. We killed a lot of them. They warned us of what they were going to do but we thought they were only bluffing. They beat us fair and square. We were quits. And now we are friends.

پہلے ہم نے ان کے پرل ہاربر پر حملہ کیا۔ ہم نے ان کے بہت سے لوگوں کو مارڈالا۔ اس کے جواب میں وہ جو کچھ کرنے والے تھے اس سے انہوںنے ہمیں آگاہی دی۔ مگر ہم نے سمجھا کہ یہ محض دھونس ہے۔ انہوں نے ہمیں کسی دھوکے کے بغیر کھلے طو رپرمارا۔ پہلے ہم ایک دوسرے سے دور تھے۔ اب ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (ہندوستان ٹائمس، 4 اپریل 1981)۔

ایٹمی حملہ سے مرنے والوں کی یادگار ہیروشیما میں قائم کی گئی ہے۔ امن میوزیم (Peace Museum) میں جنگی تباہ کاریوں کی تصویریں بھی لگی ہوئی ہیں۔ ان چیزوں کو دیکھنے کیلئے ہر سال تقریباً 70 لاکھ جاپانی ہیروشیماآتے ہیں۔ گفتگو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عام جاپانی کے دل میں امریکا کے خلاف نفرت چھپی ہوئی موجود ہے۔ تاہم وہ اپنے عملی رویہ میں اس کا اظہار ہونے نہیں دیتے۔ انہوں نے اپنے مخالفانہ جذبات پرحقیقت پسندی کا پردہ ڈال رکھا ہے۔ جاپانیوں کے اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ جنگ کے بعد بہت تھوڑی مدت میں انہوں نے دوبارہ غیر معمولی ترقی کرلی۔ ان کے یہاں نہ تیل نکلتا ہے اور نہ ان کے پاس معدنیات کی کانیں ہیں۔ ان کو بیش تر خام مال باہر سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود جاپان آج اپنے اعلیٰ سامانوں کی بدولت دنیا کی مارکیٹ پر چھایا ہوا ہے۔

مسٹر خشونت سنگھ نے جاپان میں وکیلوں کی بابت معلوم کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہاں وکالت کے پیشہ کا حال اچھا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان جب کوئی نزاع پیدا ہوتی ہے تو وہ عدالت میں جانے کے بجائے باہمی گفتگو سے اس کو طے کرلیتے ہیں۔ جب آدمی اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہوتو جھگڑا کبھی آگے نہیں بڑھتا۔ جھگڑا ختم نہ ہونے کی وجہ اکثر حالات میں یہ ہوتی ہے کہ ایک آدمی یک طرفہ طور پر دوسرے کو الزام دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے دوسرے کے اندر بھی ضد پیدا ہوجاتی ہے۔ اور مسئلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جب ایک فریق اپنی جانب کی غلطی مان لے تو دوسرے کے اندر بھی جھکاؤ پیدا ہوگا اور مسئلہ وہیں کا وہیں ختم ہوجائے گا۔

اس حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کا جاپان کویہ بہت بڑافائدہ ملاہے کہ ایک جاپانی دوسرے جاپانی پر اعتماد کرتا ہے۔ ہندوستان جیسے ملکوں میں تجارتی معاہدے اور تجارتی خط وکتابت عام طور پر ایسے ماہرین انجام دیتے ہیں جو بہت بندھے ہوئے الفاظ اور قانونی پہلوؤں کی کامل رعایت کرنے والی زبان لکھنا جانتے ہیں۔ مگر جاپانی اپنا وقت اس قسم کے تحریری مسودات تیار کرنے میں ضائع نہیں کرتے۔ امریکا میں قانون دانوں کی تعداد 50 ہزار ہے جبکہ جاپان میں قانون دانوں کی تعداد صرف 11 ہزار ہے۔ جاپان میں ایسے لفظی ماہرین کا زیادہ کام ہی نہیں۔

جاپان کے اکثر تجارتی ادارے زبانی معاہدوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اولاً اس کا رواج جاپانیوں کے باہمی تعلقات میں ہوامگر اب باہر کے تاجر بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ جاپانی کے منھ سے بولے ہوئے لفظ پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔ قانونی بندشوں سے آزادی کا یہ فائدہ ہے کہ کام تیزی سے ہوتا ہے او رغیر ضروری لفظی پابندیاں کارکردگی میں حارج نہیں بنتیں۔

جاپان کے اس مزاج نے اس کو باہمی اتحاد کا تحفہ دیا ہے۔ اور اتحاد بلاشبہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ جاپان کی ترقی کا راز جاپانیات کے ایک ماہر نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے:

Never quarrelling amongst themselves, always making everything together.

آپس میں کبھی نہ جھگڑنا، ہر کام ہمیشہ مل جل کر کرنا (ہندوستان ٹائمس 4 اپریل 1981ء)

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom