دینے کے بعد پانا
انگریزی کا مقولہ ہے کہ ہم دیتے ہیں تبھی ہم پاتے ہیں(In giving that we receive)۔ اس کی ایک مثال اکتوبر 1986 میں برطانیہ کی ملکہ کا چین کا دورہ ہے۔ یہ چین کے لیے برطانیہ کے کسی شاہی فرد کا پہلا تاریخی دورہ تھا۔ چین اور برطانیہ ایک سو سال سے ایک دوسرے کے روایتی رقیب بنے ہوئے تھے۔ اس دورہ سے برطانیہ کو یہ کامیابی حاصل ہوئی کہ چین کے ساتھ اس کا ایک بلین ڈالر سے زیادہ $ 1.5 billion))سالانہ تجارت کا معاہدہ یقینی ہو گیا۔
پانے کا یہ معاملہ دینے کے بعد ہوا۔ ٹائم میگزین (17 اکتوبر1986)نے اس دورہ کی رپورٹ دیتے ہوئے یہ بامعنی الفاظ لکھے ہیں:
Her Majesty Queen Elizabeth II had long voiced a desire to visit the People's Republic of China. But as long as Britain ruled a piece of Chinese territory, the crown colony of Hong Kong, such a journey was impossible. The 1984 Sino-British agreement returning Hong Kong to China in 1997 provided the price of admission. )p. 22(
ملکہ الزبتھ بہت عرصہ سے اس خواہش کا اظہار کر رہی تھیں کہ وہ چین جانا چاہتی ہیں۔ مگر جب تک برطانیہ چین کے ایک حصّہ (ہانگ کانگ) کا حکمران تھا اس قسم کا سفر ناممکن بنا رہا۔ 1984 میں چین- برطانیہ معاہدہ ہوا جس کے مطابق برطانیہ 1997میںہانگ کانگ کو واپس کر دے گا۔ اس معاہدہ نے ملکہ برطانیہ کے چین میں داخلہ کی قیمت ادا کر دی۔
برطانیہ نے ہانگ کانگ کے معاملہ میں چین کے مطالبہ کو مان لیا۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ اس کے لیے چین میں تجارت کا وسیع دروازہ کھلے۔ اگرچہ ہانگ کانگ کو دوبارہ چین کے حوالے کرنا ایک بے حد سخت معاملہ تھا۔ ٹائم کے الفاظ میں، اس کا مطلب یہ تھا کہ برطانیہ کا ایک ہیرا اس کے تاج سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے— یہی موجودہ دنیا کا قانون ہے۔ یہاں دوسروں سے لینے کے لیے دوسروں کو دینا پڑتا ہے۔ جو لوگ دیے بغیر یک طرفہ طور پر دوسروں سے لینا چاہتے ہوں، ان کے لیے موجودہ دنیا میں کچھ بھی پانا مقدر نہیں۔