اُلٹا نتیجہ
سبھاش ایک ڈاکو تھا جو ڈاکہ زنی کے 20 واقعات میں ماخوذ تھا۔ پولیس نے اس کو زندہ یا مردہ پکڑنے پر پندرہ ہزار روپیہ نقد انعام کا اعلان کیا تھا۔
13 دسمبر 1983 کا واقعہ ہے۔ دہلی کی ایک پولیس پارٹی اپنے میٹا ڈورپر انکم ٹیکس آفس کے پاس سڑک پر تھی۔ اس نے دیکھا کہ سامنے سے ایک سفید فیٹ کارآرہی ہے۔ پولیس کی گاڑی کے قریب آکر اچانک اس نے یوٹرن (U.Turn) لیا۔ یعنی گھوم کر پیچھے کی طرف واپس ہو گئی۔ پولیس والوں کو شبہ ہوا اور انھوں نے کار کا پیچھا کیا۔ پولیس کی گاڑی جب بالکل قریب پہنچ گئی تو کارکے مسافروں نے پولیس کی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔
اب پولیس پارٹی کو یقین ہو گیاکہ اس کے اند رکوئی مجرم بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ پولیس والوں نے بھی جواب میں کار کے اوپر فائر کیے۔ مگر کار آگے کی طرف بھاگتی رہی اور بالآخر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ تاہم اسی شام کو شاہدرہ اسپتال کے قریب ایک لاش سڑک پر پڑی ہوئی ملی۔یہ مذکورہ ڈاکو سبھاش کی لاش تھی۔ پولیس کی گولیوں سے زخمی ہو کر وہ جلد ہی مر گیا تو اس کے بقیہ چار ساتھیوںنے اس کو کار سے نکال کر باہر سڑک پر پھینک دیا اور خود آگے کی طرف روانہ ہو گئے۔ (ٹائمس آف انڈیا؛ ہندوستان ٹائمس ، 14 دسمبر 1983)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی بچاؤ کا اقدام الٹا پڑتا ہے۔ سفید کا روالے اگر معمول کے مطابق اپنے راستہ سے گزر گئےہوتے تو ممکن تھا کہ وہ پولیس کی زد سے بچ جاتے۔ مگر جب انھوں نے اپنے بچاؤ کے لیے جارحانہ اقدام کیا تو وہ ہلاکت کے منہ میں جا پڑے۔
اس دنیا میں ہرآدمی کی سوجھ بوجھ کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ جس مخالف چیز کو دیکھیں اس سے لڑنے کے لیے آمادہ ہو جائیں وہ اس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے کبھی مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور کبھی اعراض کرنا پڑتا ہے۔ کبھی سامنے کی سڑک سے چلناہوتا ہے اور کبھی ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی دائیں یا بائیں سے کترا کر آگے بڑھ جائے۔ یہ دنیا ہوش مندی کا امتحان ہے،یہاں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو اس نازک امتحان میں پورا اترے۔