عملی حل
ایک عالم نفسیات کا قول ہے کہ جب کسی کی اَنا کو مَس کیا جاتا ہے تو وہ برتر اَنا بن جاتا ہے اور اس کا نتیجہ ہے فساد :
When one's ego is touched, it turns into super-ego, and the result is break-down.
عمیر بن حبیب بن حماشہ رضی اللہ عنہ نے اپنے آخر زمانہ میں اپنے پوتے ابو جعفر کو ایک لمبی نصیحت کی۔ اس نصیحت کا ایک حصہ صبر سے متعلق تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے کہا :
من لا یرضی بالقلیل مما یاتی بہ السفیہ یرضی بالکثیر ( المعجم الكبير للطبرانی، حديث نمبر 2258)يعني جو شخص نا دان کے چھوٹے شر پر راضی نہ ہو گا اس کو نادان کے بڑے شر پر راضی ہونا پڑے گا۔
ان دونوں اقوال میں بدلے ہوئے الفاظ کے ساتھ ایک ہی بات کہی گئی ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں لوگوں کے شر سے بچنے کی ایک ہی یقینی تدبیر ہے۔ اور یہ کہ اپنے آپ کو لوگوں کو شر سے دور رکھا جائے۔
ہر انسان کے اندر پیدائشی طور پر ’’ انا ‘‘ موجود ہے۔ یہ انا عام حالت میں سویا ہوا رہتا ہے اس کے شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی صورت صرف یہی ہے کہ اس کو سو یا رہنے دیا جائے۔ اگر کسی کارروائی سے اس انا کو چھیڑ دیا گیا تو وہ سانپ کی طرح اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا اور پھر وہ ہر وہ ممکن فساد برپا کرے گا جو اس کے بس میں ہو۔
اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کسی نادان یا کسی فسادی آدمی سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے۔ اکثر حالات میں اس کا بہترین حل یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی تکلیف کو برداشت کر لیا جائے۔ کیونکہ اگر ابتدائی معمولی تکلیف کو برداشت نہیں کیا گیا اور اس کا جواب دینے کی کوشش کی گئی تو فریق ثانی اور زیادہ بھڑک اٹھے گا۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ جس آدمی نے کنکری کی چوٹ برداشت نہیں کی تھی وہ مجبور کر دیا جائے گا کہ پتھروں کی بارش کو برداشت کرے۔