موقع صرف ایک بار
کالج کے ایک پرانے استاد کے ایک جملہ نے مجھے بہت متاثر کیا— ’’ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ‘‘ انھوں نے کہا۔ وہ اپنی زندگی پر تبصرہ کر رہے تھے ’’ میں بی ایس سی کر کے ملازمت میں لگ گیا تھا۔ ایم ایس سی نہیں کیا۔ اب کتنے اچھے اچھے چانس میرے سامنے آتے ہیں۔ مگرمیں ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ صرف اس لیے کہ میرے پاس ماسٹر ڈگری نہیں۔ اگر آپ کے پاس اعلیٰ لیاقت نہیں ہے تو آپ اعلیٰ مواقع سے فائدہ اٹھانے سے بھی محروم رہیں گے ‘‘۔
یہ تبصرہ ہمارے سماج کے تقریباً 99 فی صد لوگوں پر صادق آتا ہے۔ ابتدائی عمر انسان کے لیے تیاری کی عمر ہے۔ مگر بیشتر افراد اس عمر کو پوری طرح استعمال میں نہیں لاتے۔ وہ اپنے بہترین وقت کو سستے مشاغل میں ضائع کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور کام کرنے کا وقت آجاتا ہے۔ اب وہ مجبور ہوتے ہیں کہ کمتر تیاری کے ساتھ عملی زندگی کے میدان میں داخل ہو جائیں۔ وہ چاہنے کے باوجود زیادہ ترقی نہیں کر پاتے۔ ان کو ساری عمر اس طرح گزارنی ہوتی ہے کہ اس دنیا میں ان کی صلاحیتوں کے لیے جو آخری امکان مقدر تھا ، اس سے بہت کم امکان تک وہ پہنچ پاتے ہیں۔ وہ محرومی اور ناکامی کے احساس کے تحت زندگی گزارتے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ اسی حال میں مر جاتے ہیں۔
اگر آپ کمتر تیاری کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوئے ہیں تو اس دنیا میں آپ اپنا بھرپور حصہ نہیں پا سکتے ، اور جو ایک بار محروم رہا وہ گویا ہمیشہ کے لیے محروم رہا۔ کیونکه— زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ، بار بار نہیں ملتی۔
پتھر ہر ایک کے لیے سخت ہے۔ مگر پتھر اس شخص کے لیے نرم ہو جاتا ہے جس نے اس کو توڑنے کا اوزار فراہم کر لیا ہو۔ یہی صورت ہر معاملہ میں پیش آتی ہے۔ اگر آپ لیاقت اور اہلیت کے ساتھ زندگی کے میدان میں داخل ہوں تو ہر جگہ آپ اپنا حق وصول کر کے رہیں گے۔ اور اگر لیاقت اور اہلیت کے بغیر آپ نے زندگی کے میدان میں قدم رکھا ہے تو آپ کے لیے اس دنیا میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اپنی مفروضہ حق تلفی کے خلاف فریاد واحتجاج کرتے رہیں۔
ماحول سے امید نہ رکھیے بلکہ اپنی محنت اور لیاقت پر بھروسہ کیجئے ، آپ کو کبھی ماحول سے شکایت نہ ہو گی۔ ماحول کی شکایت دراصل ماحول سے زیادہ خود اپنی نالائقی کا اظہار ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے وہ مطلوبہ تیاری نہیں کی تھی جو ماحول سے اپنا حق وصول کرنے کے لیے ضروری ہے۔