غلطی پر غلطی
آدمی اگر اپنی غلطی نہ مانے تو وہ ہمیشہ دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ دوسرے کو برا ظاہر کر کے اپنی برائی پر پردہ ڈال سکے۔
ایک آدمی بے روز گار تھا۔ اس کے دوست نے کہا کہ تم کوئی کاروبار کرو۔ آدمی نے کہا میرے پاس سرمایہ نہیں۔ دوست نے کہا کہ تم کسی طرح پانچ ہزار روپے فراہم کر لو تو میں تم کو پانچ ہزار روپے بطور قرض دے دوں گا۔ پھر تم دس ہزار روپے سے اپنا کام کر لینا۔ آدمی نے کہیں سے پانچ ہزار روپے حاصل کیے۔ اس کے بعد جب اس نے دوست سے وعدہ کے مطابق رقم مانگی تو اس نے عذر کر دیا۔ اس کے بعد دوست کا یہ حال ہوا کہ وہ اس آدمی کو مستقل برا کہتا رہتا۔ ہر موقع پر اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔
دوست ایسا کیوں کرتا تھا۔ جواب یہ ہے کہ اپنے احسا س جرم کو دوسرے کے اوپر ڈالنے کے لیے۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ میں روپیہ دینے کے لیے تو تیار تھا۔ مگر یہ آدمی اس قابل ہی نہ تھا کہ اس کو روپیہ دیا جائے۔ اس کی اپنی نالائقی نے اس کو روپیہ سے محروم رکھا،نہ کہ میری کوتاہی نے۔ انسان یا تو اپنی غلطی مانے گا یا دوسرے کو غلط کہے گا۔ وہ بیک وقت دونوں سے بچ کر نہیں رہ سکتا۔
ایسا آدمی بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہوشیاری کر رہا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ایک جرم کو دو جرم بنا رہا ہے۔ پہلے مرحلہ میں دوست صرف وعدہ خلافی کا مجرم تھا، اب وہ جھوٹا الزام لگانے کا بھی مجرم بن گیا۔
جب بھی آدمی سے کوئی غلطی ہو تو بہترین بات یہ ہے کہ وہ اس کا اعتراف کر لے۔ غلطی کا اعتراف بات کو وہیں کا وہیں ختم کر دیتا ہے۔ مگر جب آدمی غلطی کا اعتراف نہ کرے تو لازماً ایسا ہو گا کہ وہ دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح غلطی پر غلطی کرتا چلا جائے گا۔ آدمی یا تو اپنے کو غلط مان کر مطمئن ہوتا ہے یا دوسرے کو غلط ثابت کرکے۔ اگر وہ پہلا کام نہ کرے تو ضرور اس کو دوسرا کام کرنا پڑے گا۔ اور دوسرا کام یقینی طور پر اس کے لیے پہلے سے زیادہ برا ہو گا۔
غلطی کرنا بشری کمزوری ہے۔ مگر جھوٹا الزام لگانا سر کشی ہے۔ اور کمزوری کے مقابلہ میں سرکشی یقیناً زیادہ بڑا جرم ہے۔