فرد کی سطح پر
ایک شخص بائیسکل پر سفر کر رہا تھا۔ اچانک اس کا بریک جام ہو گیا۔ وہ اتر کر سائیکل ساز کے پاس گیا۔ مسافر کا خیال تھاکہ جس مقام پر اس کا بریک جام ہوا ہے، سائیکل ساز اسی مقام پر ہاتھ لگا کر اس کو درست کرے گا۔ مگر سائیکل ساز نے ہتھوڑی لی اور بالکل دوسرے مقام پر ٹھونکنا شروع کر دیا۔ مسافر ابھی اپنی حیرت کا اظہار بھی نہیں کر پایا تھا کہ مستری نے کہا ’’بس ٹھیک ہے ، لے جائیے‘‘۔ اگلے لمحے سائیکل اپنے مسافر کو لیے ہوئے دوبارہ سڑک پر دوڑرہی تھی۔
یہی معاملہ انسانی زندگی کا بھی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ظاہری اسباب کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ خرابی یہاں ہے۔ وہ اسی مقام پر ٹھونک پیٹ شروع کر دیتا ہے۔ مگر خرابی دور نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خرابی کی اصل جڑ کہیں اور ہوتی ہے اور جب تک اصل جڑ کی اصلاح نہ کی جائے۔ خرابی کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
مثلاً قوم کے اندر اتحاد نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ لوگ آپس کے اختلاف میں غیروں سے مل جاتے ہیں۔ ان کی کوئی اجتماعی آواز نہیں ہے، وغیرہ۔ ان مظاہر کو دیکھ کر ایک شخص کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ اٹھتا ہے اور وہ فوراً اجتماع اور کنونشن کی اصطلاحات میں سوچنے لگتا ہے۔ اس کو کام یہ نظر آتا ہے کہ قوم کے افراد کو جمع کر کے پُر جوش تقریریں کی جائیں۔ رزولیوشن پاس کیے جائیں۔ وغیرہ۔
مگر یہ مسئلہ کاحل نہیں۔ یہ گویا علامتوں پر محنت کرنا ہے۔ حالانکہ اصلی حل یہی ہے کہ سبب پر محنت کی جائے۔ زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسئلہ بظاہر کہیں اور پیدا ہوتا ہے اور اس کے حل کا راز کہیں اور ہوتا ہے۔ مثلاً قوم کے اندر اگر اتحاد نہیں ہے تو اس کا سبب افراد کی بے اتحادی ہو گی۔ ایسی حالت میں آپ ’’اتحاد کانفرنس‘‘کرکے لوگوں کے اندر اتحاد پیدا نہیں کر سکتے۔ پہلے فرد کی سطح پر اتحاد پیدا کیجئے۔ اس کے بعد قوم کی سطح پر اپنے آپ اتحاد پیدا ہو جائے گا۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ’’پھل‘‘پر محنت کرنے والے کو پھل نہیں ملتا۔ یہاں پھل صرف وہ شخص پاتا ہے جس نے ’’بیج‘‘پر محنت کرنے کا ثبوت دیا ہو۔