تعمیر خویش
اللہ تعالیٰ نے لکڑی پیدا کی مگراس نے کشتی نہیں بنائی۔ اس نے لوہا زمین میں رکھ دیا مگر اس نے لوہے کو مشین کی شکل میں نہیں ڈھالا۔ اس نے المونیم اور پلاسٹک پیدا کیا مگر ان کو جہاز کی صورت میں تشکیل دینے کا کام چھوڑدیا۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسراکام اللہ تعالیٰ انسان سے لینا چاہتا ہے۔ اللہ نے ایک طرف ہر قسم کے خام مواد پیدا کیے۔ اور دوسری طرف انسان کو عقل کی صلاحیت عطا فرمائی۔ اب اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ انسان زمین سے خام مواد لے کر اس کومشین کی صورت دے۔ وہ بغیر گھڑے ہوئے مادہ کو گھڑے ہوئے مادہ میں تبدیل کرے۔
یہ فطرت کی قوتوں کو تمدن میں ڈھالنے کی مثال ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بہترین شخصیت عطا فرمائی۔ فطرت کی سطح پر اس کو اعلیٰ ترین وجود عطا فرمایا۔ تاہم یہ انسانی شخصیت اپنی ابتدائی صورت میں ایک قسم کا خام مواد ہے۔ اب یہ کام خود انسان کو کرنا ہے کہ وہ خداکے دیے ہوئے اس ابتدائی وجود کی تشکیل نو کرے۔ وہ فطرت کے سادہ ورق پر اپنا کلام تحریر کرے۔ یہی انسان کا امتحان ہے۔ اسی معاملہ میں کامیابی یا ناکامی پر اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے شعور کو معرفت میں ڈھالے۔ اپنے احساسات کو ذکر الٰہی میں تبدیل کرے۔ وہ اپنے عمل کو ربانی کردار کی صورت میں ظاہر کرے۔ وہ اپنی شخصیت کو آخری حد تک خدا کا بندہ بنادے۔
ایک انسان وہ ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا انسان وہ ہے جس کو ہر شخص اپنے آپ بناتا ہے۔ آدمی اپنی ماں کے پیٹ سے گویائی لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اب کوئی انسان اپنی گویائی کو حق کے اعتراف کی طرف لے جاتا ہے اور کوئی حق کے انکار کی طرف۔ آدمی اپنی ماں کے پیٹ سے اعلیٰ صلاحیت لے کر موجودہ دنیا میں آتا ہے۔ اب کوئی شخص اس صلاحیت کو فوری فائدے کے حصول میں لگاتا ہے اور کوئی اس کو اعلیٰ مقصد کے لیے وقف کردیتا ہے۔ ہر آدمی فطرت کی ایک زمین ہے۔ کوئی اپنی زمین پر کانٹے اگاتا ہے او ر کوئی ہے جو اپنی زمین پر پھولوں کا باغ بنادیتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو جنت کا باشندہ بناتا ہے اور کوئی جہنم کا باشندہ۔