شکایت
شکایت ایک ایسی چیز ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ نہ صرف عام انسان بلکہ پیغمبروں کے بارے میں بھی بڑی بڑی شکایتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ حتیٰ کہ نعوذ باللہ خود خدا بھی شکایتوں سے مستثنیٰ نہیں۔ بے شمار لوگ ہیں جو اپنی مصیبتوں کے لیے خدا کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ فلسفہ میں ایک مستقل بحث ہے جس کو بگاڑ کا مسئلہ (Problem of evil) کہا جاتا ہے۔ اس کے دعویدار کہتے ہیں کہ یا تو خدا کا وجود نہیں ہے اور اگر خدا ہے تو وہ کامل معیار والا نہیں ہے۔ خدا اگر کامل معیار والا ہوتا تو دنیا میں بگاڑ کیو ں ہوتا۔
شکایت کبھی واقعہ ہوتی ہے اور کبھی محض شکایت کرنے والے شخص کے اپنے ذہن کا نتیجہ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تم کسی کے خلاف کوئی بات سنو تو اس کی تحقیق کرو(49:6) تحقیق سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ بات صحیح تھی یا صحیح نہ تھی۔
شکایت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ان میں سب سے بری قسم وہ ہے جو احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک شخص اپنے کو بطور خود بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اب اگر اس کا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑے جس کوخدا نے اس سے اوپر کر دیا ہو تو یہ اول الذکر شخص کے لیے بڑا سخت لمحہ ہوتا ہے۔ عام طور پر وہ تسلیم نہیں کر پاتا کہ دوسرا شخص بڑا ہے اور وہ چھوٹا۔ وہ اپنی بڑائی کے ٹوٹنے کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اس کی شخصیت پھٹ جاتی ہے وہ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنا شروع کر دیتا ہے۔
وہ اس پر جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ وہ اس کی تحقیر کرتا ہے تا کہ اپنے جذبہ برتری کی تسکین حاصل کرے۔ وہ اس کی عزت پر حملہ کرتا ہے تا کہ اس کو بے عزت کر کے اپنی متکبرانہ نفسیات کو غذا فراہم کرے۔ وہ خود ساختہ طور پر طرح طرح کی باتیں نکال کر اس کو چھوٹا ظاہر کرتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے یہ اطمینان حاصل کر سکے کہ وہ بڑا ہے ہی نہیں۔ آدمی اگر حقیقت واقعہ کے اعتراف کے لیے تیار رہے تو تمام شکایتوں کی جڑ کٹ جائے۔ آدمی چوں کہ حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا، اس لیے وہ اپنے آپ کو شکایت سے اوپر اٹھانے میں بھی کامیاب نہیں ہوتا۔