تعمیری مزاج
ڈاکٹر عبدالجلیل صاحب (نئی دہلی) 1970 میں جاپان گئے تھے اور وہاں چھ مہینے تک رہے۔ انہوں نے 14 اکتوبر 1984کی ایک ملاقات میں بتایا کہ میں ٹوکیو میں مقیم تھا اور اپنے کام کے تحت ٹوکیو سے ایک مقام پر جایا کرتا تھا۔ یہ سفر ٹرین سے پندرہ منٹ میں طے ہوتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایک روز وہ ٹوکیو سے ٹرین پر سوا ر ہوئے۔ پندرہ منٹ گزرگئے مگر ان کا مطلوبہ اسٹیشن نہیں آیا۔ ایک اسٹیشن پر ٹرین رکی مگر انہوں نے بورڈ دیکھا تو یہ کوئی دوسرا اسٹیشن تھا۔ اب تشویش ہوئی۔ ان کو خیال ہوا کہ غالباً وہ کسی غلط ٹرین پر سوار ہوگئے ہیں۔ ڈبہ میں ان کے قریب ایک جاپانی نوجوان کھڑاہوا تھا۔ مگر زبان کی مشکل تھی۔ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب جاپانی زبان نہیں جانتے تھے اور وہ شخص انگریزی زبان سے ناواقف تھا۔ انہوں نے یہ کیا کہ ایک کاغذ پر اپنے مطلوبہ اسٹیشن کا نام لکھا اور جاپانی نوجوان کو اسے دکھایا۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس درمیان میں ٹرین چل چکی تھی مگر ابھی اس نے پلیٹ فارم نہیں چھوڑا تھا۔ نوجوان نے ڈاکٹر صاحب کا کارڈ دیکھتے ہی فوراً زنجیر کھینچی۔ ٹرین رکی تو وہ ڈاکٹر صاحب کو لے کر نیچے اترا۔ اب وہ ان کے ساتھ چلنے لگا۔ اس کے بعد اس نے ان کو مخالف سمت سے آنے والی دوسری ٹرین پر بٹھایا اورخود بھی ان کے ساتھ بیٹھا۔ ٹرین دونوں کو لے کر روانہ ہوئی۔ چند منٹ میں ڈاکٹر صاحب کا مطلوبہ اسٹیشن آگیا۔ اب نوجوان ان کو لے کر اترا اور یہاں چھوڑ کر دوسری ٹرین سے وہاں کے لیے روانہ ہوگیا جہاںاس کو جانا تھا۔ اس دوران دونوں کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ کیونکہ ڈاکٹر صاحب جاپانی زبان نہیں جانتے تھے اور جاپانی نوجوان انگریزی زبان سے ناواقف تھا۔
اسی طرح مثلاً انہوں نے بتایا کہ میں کسی سڑک پر تھا۔ میں نے دیکھا کہ دو جاپانیوں کی کار آمنے سامنے سے آتے ہوئے ٹکرا گئی، دونوں اپنی گاڑی سے اترے اور ایک دوسرے کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہوگئے۔ ایک نے کہا کہ غلطی میری ہے ، مجھے معاف کردو — دوسرے نے کہا غلطی میری ہے مجھے معافکردو۔
اسی کا نام تعمیری مزاج ہے ، اور یہی تعمیری مزاج قوموں کی ترقی کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ اس کے برعکس، جس قوم کے افراد کا یہ حال ہو کہ وہ صرف اپنے کو جانیں اور دوسرے کو نہ جانیں وہ کبھی کوئی بڑی ترقی حاصل نہیں کرسکتے۔