معلومات نہیں ذہنی رجحان
نوبل انعام کا حصول،سائنس کی دنیا میں ، اعلیٰ ترین کارکردگی کا ایک مسلمہ معیار سمجھا جاتا ہے۔ یہ انعام کسی کو کیسے حاصل ہوتا ہے۔ کیمسٹری کے نوبل انعام یافتہ ایچ۔ اے۔کرئیبز (H. A. Krebs)نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سائنس دان بننے کے لیے اعلیٰ سازو سامان والی لیبارٹریوں اور جدید ترین لٹریچر پر مشتمل لائبریریوں سے بھی کہیں زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ کچھ مدت کے لیے کسی بڑی سائنسی شخصیت کی صحبت و رفاقت میسر آجائے۔ ’’اگر مجھے اپنی جوانی کے ابتدائی چار سال ‘‘ وہ لکھتا ہے ’’آٹوواربرگ (Otto Warburg)جیسے سائنس دان کی رفاقت میسر نہ آتی تو میرے اندر سائنس کا صحیح ذوق پیدا ہونا محال تھا۔ ‘‘
کریبز مختلف بڑے سائنس دانوں کے اقوال پیش کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اعلیٰ سائنس دانوں کی صحبت جو سب سے بڑی چیز کسی کو دیتی ہے وہ سائنسی حقائق اور سائنسی طریقوں کے بارے میں معلومات کا انبار نہیں ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو ہر جگہ سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جو بات حقیقی فرق پیدا کرتی ہے، وہ دراصل فیضان نظر ہے جسے استاد اپنے شاگرد کو منتقل کرتا ہے۔ یہی فیضان نظر، جس کو وہ عمومی سائنسی روح(General Scientific Spirit)کا نام دیتا ہے، کسی شخص کو سچا سکالر بناتا ہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ایک عظیم استاد یا سائنس دان اپنے شاگرد کے ذہن میں حقائق کے بارے میں معلومات سے کہیں زیادہ ایک ذہنی رویہ(Attitude)منتقل کرتا ہے— اس ذہنی رویہ میں دو باتیں بالخصوص بہت اہم ہیں۔ ایک عجز(Humility) دوسرا شوق (Enthusiasm)‘‘
عجز اور شوق دو سب سے بڑے زینے ہیں جن سے گزر کر آدمی اونچی ترقی کی منزل تک پہنچتا ہے۔ شوق آدمی کو اکساتا ہے کہ وہ کہیں رکے بغیر اپنا سفر جاری رکھے۔ شوق آدمی کے اندر تجسس کا جذبہ ابھارتا ہے جس کی وجہ سے وہ چیزوں کی حقیقت جاننے کی کرید میں رہتا ہے۔ تا ہم جستجو کا شوق ہی کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ عجز بھی انتہائی طور پر ضروری ہے۔ عجز کا مطلب ہے اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ سے کم سمجھنا۔ ایسا آدمی غلطی معلوم ہوتے ہی فوراً اس کا اعتراف کر لیتا ہے۔ وہ کسی بات کو ماننے سے کبھی اس لیے نہیں رکتا کہ اس کی وجہ سے اس کا وقار کم ہو جائے گا۔ وہ حق کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے،نہ کہ کسی اور چیز کو۔