حوصلہ مندی
نوبل انعام یافتہ پروفیسر عبد السلام نے جنوری 1986 میں ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ اس سلسلہ میں ان کی تقریروں کی رپورٹیں اخبارات میں آتی رہیں۔ ان کی ایک تقریر کی رپورٹ میں حسب ذیل الفاظ شامل تھے :
Citing the example of South Korea, he said that about 15 years ago, the gross national product per capita there was equal to that of India. However, it was many times more now due to the efforts they had put. Prof. Salam said that a team from South Korea had come to Trieste, Italy , where he stays, and wanted to know how Nobel prizes were won. He said that it was a similar spirit which should be inculcated in the people of the third world.
The Times of India, January 16, 1986
جنوبی کوریا کی مثال دیتے ہوئے پروفیسر عبد السلام نے کہا کہ تقریباً پندرہ سال پہلے اس کی اور ہندوستان کی قومی پیداوار فی شخص برابر تھی۔ مگر اب جنوبی کوریا کی کوششوں کے نتیجہ میں اس کی فی شخص قومی پیداوار ہندوستان سے کئی گُنا زیادہ ہو چکی ہے۔ پروفیسر عبد السلام نے کہا کہ جنوبی کوریا کی ایک ٹیم ٹریسٹ ( اٹلی ) آئی جہاں وہ رہتے ہیں اور ان سے یہ جاننا چاہا کہ نوبل انعام کس طرح حاصل کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ، یہی وہ روح ہے جو تیسری دنیا کے لوگوں میں پیدا کی جانی چاہیے۔
تلاش کا یہ جذبہ ہی تمام ترقیوں کی بنیاد ہے ، خواہ وہ فرد کی ترقی کا معاملہ ہو یا قوم کی ترقی کا معاملہ۔ اور خواہ اس کا تعلق دنیا کی ترقیوں سے ہو یا آخرت کی ترقیوں سے۔ ہر ترقی انھیں لوگوں کے لیے ہے جو اپنے اندر تلاش وجستجو کا کبھی نہ ختم ہونے والا جذبہ رکھتے ہوں۔
تلاش کا جذبہ یہ بتاتا ہے کہ آدمی کے اندر جمود نہیں پیدا ہوا ہے۔ اور جمود تمام ترقیوں کا قاتل ہے۔ جہاں جمود آیا وہاں ترقی کا عمل بھی لازمی طور پر رک جائے گا۔ جمود کی حالت طاری ہونے کے بعد آدمی ’’ مزید ‘‘ کے شوق سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور جس سے مزید کا شوق رخصت ہو جائے وہ جہاں ہے وہاں بھی باقی نہیں رہے گا۔ بلکہ پیچھے جانا شروع ہو جائے گا ،یہاں تک کہ بالکل آخری صف میں پہنچ جائے گا۔