تعبیر کا فرق
’’قم ‘‘کے معنی عربی زبان میں ’’ اٹھو ‘‘ کے ہیں اور قم ایران کے ایک شہر کا نام بھی ہے۔ ایک پرانا لطیفہ ہے کہ شہر قم کے قاضی صاحب کو ان کے حاکم کا ایک حکم نامہ ملا جس میں عربی زبان میں یہ تحریر تھا: یاقاضی قم لقد شبتَ فقم۔ اس جملہ کا لفظی مطلب یہ ہے کہ اے قم کے قاضی،اب تم بوڑھے ہو گئے اس لیے اٹھو ( اپنا عہدہ چھوڑ دو )، یہ حکم نامہ جب قاضی قم کو ملا تو اس نے کہا : ’’ قتلنی حبّ الامیر للقافیۃ‘‘ (امیر کی قافیہ پسندی نے مجھے مار ڈالا)
قاضی صاحب کی نظر قُم(اٹھو)پر گئی، شبتَ(تم بوڑھے هو گئے هو)پر نہیں گئی۔ اگر وہ شبتَکے لفظ پر غور کرتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ ان کو عہدهٔ قضا سے ہٹانے کی اصل وجہ ان کا بڑھاپاہے،نہ کہ قُم کا قافیہ۔ امیرکو انھیں بڑھاپے کے سبب سے اس ذمہ دارانہ منصب سے ہٹا کر کسی دوسرے جواں سال آدمی کو وہاں رکھنا تھا۔ یہ محض اتفاقی بات تھی کہ وہ شہر قُم کے قاضی تھے اور اس بنا پر حسن تعبیر کے لیے اس نے اپنے حکم کے لیے مذکورہ الفاظ استعمال کر لیے۔ اگر وہ قم کے بجائے کسی اور شہر کے قاضی ہوتے تب بھی وہ انھیں معزول کرتا۔ البتہ اس صورت میں اس کے حکم کے الفاظ دوسرے ہوتے۔
جب بھی ایک بات کہی جائے تو اس کا کوئی جزء اصلی ہوتا ہے اور کوئی جزء اتفاقی۔ کوئی چیز اصل مقصود کلام کے طو پر آتی ہے اور کوئی اتفاقاً کلام کا جزء بن جاتی ہے۔ آدمی کسی کلام کی حکمت کو اسی وقت سمجھ سکتا ہے جب کہ وہ الفاظ کے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر کلام کا مفہوم متعین کرے۔ اس کے بر عکس، اگر وہ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو وہ سخت غلطی کرے گا۔ وہ بظاہر کلام کو سمجھتے ہوئے بھی کلام کو نہیں سمجھے گا۔ وہ نہ کہنے والے کے ساتھ انصاف کرے گا اور نہ خود اپنے ساتھ۔
مذکورہ قاضی صاحب اتنے نا دان نہیں ہو سکتے کہ وہ اس راز کو نہ سمجھ سکیں۔ یہ واقعہ اگر دوسرے شخص سے متعلق ہوتا تو وہ فوراً اس کو جان لیتے۔ مگر معاملہ ان کی اپنی ذات کا تھا اس لیے وہاںاس كي حقیقت تک نہ پہنچ سکے۔ جب بھی کوئی آدمی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہو تو وہ حقیقت پسندانہ انداز میں سوچ نہیں پاتا اور اس بنا پر اصل معاملہ کو سمجھنے میں اسی طرح ناکام رہتا ہے جس طرح قاضی صاحب ناکام رہے۔