ملّت کا درخت اگانے کے لیے
سابق صدر امریکا جان ایف کینیڈی نے ایک بار لاوٹے (Lyautay)کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا اپنا ایک قصہ نقل کیا تھا۔ اس کے الفاظ یہ تھے:
(I) once asked (my) gardener to plant a tree. The gardener, objected that the tree was slow growing and would not reach the maturity for a hundred years. (I) replied: “In case there is no time to loose, plant in the afternoon........”
Chartered Accountant (Supplement) New Delhi, June 1979
میں نے ایک بار اپنے باغبان سے ایک درخت کا پودا لگانے کے لیے کہا۔ باغبان نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ درخت بہت دھیرے دھیرے بڑھتا ہے اور اس کو پورا درخت بننے میں ایک سو سال لگ جائیں گے۔ میں نے جواب دیا: ایسی حالت میں تو ہم کو بالکل وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ تم آج ہی دوپہر بعد اس کا پودالگا دو۔
ملت کی تعمیر و ترقی ایک طویل المدت منصوبہ ہے۔ فرد اور اجتماع کی سطح پر بے شمار اسباب فراہم کرنے کے بعد وہ وقت آتا ہےجب کہ ملت اپنی پوری شان کے ساتھ زندہ ہو اور وہ ایک طاقتور قوم کی حیثیت سے زمین پر اپنی جگہ حاصل کرے۔ مگر جب اس قسم کا منصوبہ پیش کیا جاتاہے تو کہنے والے فوراً کہہ دیتے ہیں: یہ تو بڑالمبا منصوبہ ہے۔ اس کو پورا ہونے میں سو سال لگ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو ہمارا جواب صرف ایک ہے:جب ایسا ہے تو ہمیں ایک لمحہ کے لیے بھی اپنا وقت کھونا نہیں چاہیے۔ ہم کو چاہیے کہ ہم آج ہی پہلی فرصت میں اپنا ’’درخت‘‘نصب کر دیں۔
ایک طاقتور درخت ہمیشہ ’’سو سال‘‘ہی میں تیار ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص طاقتور درخت کا مالک بننا چاہتا ہو اس کے لیے سو سالہ باغبانی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر وہ ایسا کرنے کے بجائے سڑکوں پر نکل کر ’’درخت ستیہ گرہ‘‘ شروع کر دے۔ یا کسی میدان میں جمع ہو کر ’’باغ ملّت زندہ باد‘‘کے نعرے لگانے لگے تو یہ ایک احمقانہ حرکت ہو گی جس سے نہ کوئی درخت اُگے گا اور نہ وہ باغ والا بنے گا۔ اس کا واحد انجام صرف یہ ہے کہ وہ اس وقت کو مزید ضائع کر دے جو درخت اگانے کے لیے اس کو قدرت کی طرف سے حاصل تھا۔ آپ کے پاس مکان نہ ہو اور آپ سڑک پرکھڑے ہو کر پھلجھڑی چھوڑنے لگیں تو اس سے آپ شہر میں ایک مکان کے مالک نہیں بن جائیں گے۔ اسی طرح ملّت کا نام لے کر کچھ لوگ سیاسی شعبدہ بازی کرنے لگیں تو اس قسم کے شعبدوں سے ایسا نہیں ہو سکتا کہ زمین پر ملّت کا قلعہ کھڑا ہو جائے۔ اشعار کی دنیا میں صرف تُک بندیوں کے ذریعہ بڑے بڑے انقلاب لائے جا سکتے ہیں، ایک خطیب اپنے پرجوش الفاظ کے ذریعہ آناً فاناً ایک پنڈال کو شان دار کامیابیوں کے آسمان پر پہنچا سکتا ہے۔ مگر ایک حقیقی واقعہ کو ظہور میں لانا ایسا صبرآزما کام ہے جو طویل منصوبہ بندی اور مسلسل جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔