زیب النساء
اس سلسلہ میں پہلا نام میری والدہ زیب النساء کا ہے۔ وہ ضلع اعظم گڑھ (یو پی) کے ایک گاؤں سنجر پور میں انیسویں صدی کے آخر میں پیدا ہوئیں اور 8 اکتوبر 1985 میں دہلی میں ان کا انتقال ہوا۔ جب کہ ان کی عمر سوسال کے قریب ہو چکی تھی۔ میری والدہ کی تعلیم اگرچہ بہت معمولی تھی، مگر وہ نہایت ذہین اور جرأت مند خاتون تھیں۔ قدیم خواتین کی طرح تمام شریفانہ اوصاف ان کے اندر مکمل طور پر موجود تھے۔
میری والدہ میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں درجۂ کمال میں پائی جاتی تھیں جو قدیم زمانہ کی خواتین کا خاصّہ ہوا کرتی تھیں۔ مگر اسی کے ساتھ ان کے اندر ایک استثنائی صفت موجود تھی جو عام طور پر ماؤں کے اندر نہیں ہوتی ۔ اور وہ ہے، اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار (pampering)کا معاملہ نہ کرنا ۔ وہ ہم لوگوں کو مارتی نہیں تھیں مگر عام ماؤں والا لاڈ پیار بھی نہیں کرتی تھیں ۔ وہ اپنے بارے میں اکثر کہتی تھیں کہ میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ ڈانٹ کر رکھا۔
والدہ کی یہ دوطرفہ صفت میرے بہت کام آئی ۔ اسی بنا پر ممکن ہوا کہ وہ اعلیٰ سطح پر میری کردار سازی کرسکیں۔ تعلیم کی کمی کی بناپر وہ اگر چہ کردار سازی یا کیریکٹر بلڈنگ کے الفاظ سے واقف نہ تھیں۔مگر یہ صفت فطری طور پر ان کے اندر کامل درجہ میں پائی جاتی تھی ۔ اخلاقی معاملات میں وہ نہایت سختی کے ساتھ میری نگرانی کرتی تھیں ۔ انہوں نے تقریبا ًمنصوبہ بند انداز میں میرے اندر اعلیٰ انسانی اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ مثلاً محنت اور تواضع کی صفت پیدا کرنے کے لیے انھوں نے دو بکری خریدی اور مجھے اس کے چَرانے کے کام پر لگا دیا۔ والدہ کے اسی مزاج کی بنا پریہ ممکن ہوا کہ مجھے اپنے بچپن میں یہ نسبت بھی حاصل ہوئی کہ میں نے بکریاں چرائیں ۔
میری والدہ کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی پوری زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولیں ۔ انہوں نے کبھی منافقانہ انداز اختیار نہیں کیا۔ اصولی معاملات میں ان کا رویہ ہمیشہ غیر مصالحانہ ہوا کرتا تھا۔ وہ سخت محنت کرتی تھیں مگر انھوں نے کبھی کسی سے کسی چیز کو مانگنا پسند نہیں کیا۔ ان کی صاف گوئی کا یہ حال تھا کہ کوئی بھی آدمی اُنہیں اس سے روک نہیں سکتا تھا کہ وہ بات کو کھلے طور پر اس کی بے آمیز صورت میں بیان کردیں ۔ وہ اخلاقِ فاضلہ کے الفاظ سے ناآشنا تھیں ۔مگر عملاً یہ حال تھا کہ وہ اپنی ساری زندگی اخلاقِ فاضلہ کا پیکر بنی رہیں۔
اپنے مزاج کی بناپر انہیں ہمارے مادّی مستقبل کی زیادہ پروا نہیں ہوتی تھی ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، انہوں نے بھی مجھ سے کمانے کی بات نہیں کی۔ مگر جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے، وہ نہایت سختی کے ساتھ اس کی نگرانی کرتی تھیں ۔ وہ رات اور دن میرے اوپر اخلاقی محاسب بنی رہتی تھیں ۔ وہ کبھی اس کو برداشت نہیں کرتی تھیں کہ ان کے بچوں کے اندر ادنیٰ درجہ میں بھی پست کرداری جیسی کوئی بات پیدا ہو۔ میرے والد فرید الد ین خاں کا انتقال میرے بچپن میں 30 د سمبر 1929 کو ہوا۔
میں اپنی پیدائش(1924ء)سے لے کر تقریباً پندرہ سال تک ان کے ساتھ گاؤں میں رہا۔ گویا میری تیاری کی مدت( formative period) پوری کی پوری اپنی ماں کے ساتھ گزری ہے۔ اس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ میرے اندر وہ انسانی اوصاف طبیعت ثانیہ کے درجہ میں پیدا ہو گئے جن کو قدیم عربوں میں المروءة کہا جاتا تھا۔
اسی تربیت کا یہ نتیجہ تھا کہ میں ایک اصول پسند انسان بن گیا ۔ جھوٹ بولنا مجھے انسانیت سے کمتر درجہ کی چیز دکھائی دینے لگی۔ دیانت داری(honesty)میرا عمومی مزاج بن گیا۔ حقیقت پسندی میرے مزاج کا لازمی حصہ بن گئی۔ میں ایک اعتراف پسند انسان بن گیا، ایک ایسا انسان جو بے اعترافی کاتحمل نہ کر سکے ۔ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اپنی والدہ کی طرف سے مجھے اپنے بچپن میں وہ چیز ملی جس کوحدیث میں خِيَارُكُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ (مسند احمد، حدیث نمبر10295)کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
میری والدہ کے اندر جو اخلاقی صفات تھیں وہ قدیم زمانہ میں خواتین کے اندر عام طور پر ہوا کرتی تھیں ۔ اس معاملہ میں میری والدہ کی حیثیت کسی استثنائی خاتون کی نہ تھی۔ مگر ایک معاملہ میں وہ ضرور استثنائی خاتون کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ وہ یہ کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ لاڈ پیار (pampering)کا معاملہ کبھی نہیں کرتی تھیں ۔ اپنے بچوں کے ساتھ ان کو وہی محبت تھی جو ہر ماں کو ہوتی ہے۔ مگر وہ اس بات کو بھی جانتی تھیں کہ لاڈ پیار بچوں کو صرف بگاڑتا ہے۔ چنانچہ اپنے بچوں کے ساتھ ان کا معاملہ مکمل طور پر ایک حقیقت پسند ماں جیسا ہوتا تھا۔ وہ اپنے بارے میں اکثر کہتی تھیں کہ ،میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ ڈانٹ کر رکھا۔ میری والدہ کی یہی وہ استثنائی صفت ہے جس نے انھیں اس قابل بنایا کہ وہ میرے لیے ایک کردار ساز ماں کا رول ادا کر سکیں۔
ایک ر بانی ِمشن کو چلانے کے لیے ایسی شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے جس کے اندرمکمل طور غیر مصالحانہ مزاج ہو۔ اس کے اندر کامل حقیقت پسندی ہو۔ اصول کے معاملہ میں اس کی حسّاسیت بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہو۔ اس کے اندر ایکسپلائٹیشن (exploitation) کا مزاج بالکل نہ پایا جاتا ہو۔ انسانیت کے حق میں اس کے دل میں شفقت اور خیر خواہی کے جذبات بھرے ہوئے ہوں ۔ مادی حقیقتوں کے مقابلہ میں غیر مادی حقیقتیں اس کو زیادہ ا ہم دکھائی دیں۔ حق کے معاملہ میں وہ کسی کی ملامت کی پروا نہ کرے۔ کوئی بھی مادی انٹرسٹ اسے اُس کے راستے سے ہٹانے والا ثابت نہ ہو ۔ لوگوں سے منفی رویہ کے باوجود وہ ہمیشہ مثبت رویہ پر قائم رہے۔ کسی بھی حال میں وہ بےاعترافی کاتحمل نہ کر سکتا ہو۔
تحدیثِ نعمت کے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ والدہ کی تربیت نے میرے اندر مذکور ہ صفات بخوبی طور پر پیدا کردیں ۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، میری والدہ معمولی تعلیم یافتہ تھیں ۔ ان کی زندگی گاؤں کے ماحول میں گزری۔ اس لیے وہ مذکورہ قسم کے اخلاقی اوصاف کی اہمیت کو شعوری طور پر نہیں جانتی تھیں ۔ انہوں نے صرف اپنے پیدائشی مزاج کے تحت میری شخصیت کو اس انداز پر ڈھالنے کی کوشش کی ۔ تا ہم یہ واقعہ ہے کہ اگر والدہ نے اس نہج پر میری شخصیت سازی نہ کی ہوتی تو میں ہرگز اس قابل نہ بنتا کہ میں اس دعوتی اور تعمیری مشن کو چلا سکوں جس کو میں نے اپنامقصدِ حیات بنایا ہے۔
الرسالہ مِشن جیسا دعوتی مِشن ہمیشہ اعلیٰ کردار کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ کردار کی دو قسمیں ہیں۔ مخلصانہ کردار اور منافقانہ کردار۔ منافقانہ کردار کی بنیاد پر ایک سیاسی کار و بار تو کیا جا سکتا ہے مگر ایک سچا مشن صرف مخلصانہ کردار کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ کردار کے بغیر ایک سچے مشن کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اعلیٰ کردار نہیں تو مِشن بھی نہیں۔
میرے تجربے کے مطابق، ہر ماں امکانی طور پر انہی اوصاف کی حامل ہوتی ہے جن کا ذکر میں نے اپنی ماں کے حوالہ سے کیا ہے ۔ مگر ماؤں کی ایک عمومی کمزوری نے انہیں محروم کر دیا کہ وہ اپنی اولاد کے حق میں وہ تعمیری کردار ادا کر سکیں جو میری ماں نے میرے حق میں ادا کیا۔ یہ کمزوری وہی ہے جس کو لاڈ پیار(pampering)کہا جاتا ہے۔ ہر ماں کو اپنے بچے سے بے پناہ محبت ہوتی ہے۔ میری والدہ میں یہ صفت تھی کہ وہ اپنی محبت کو اپنی عقل کے تابع رکھتی تھیں۔ اس لیے وہ لاڈ پیار کی تباہ کن غلطی سے بچی رہیں۔ میرا احساس ہے کہ اگر مائیں صرف اپنی اس کمزوری پر قابو پالیں تو وہ اپنی عمر ہی میں ایک نئی جنر یشن پیدا کرسکتی ہیں، ایک ایسی جنریشن جوایسے انسانوں پرمشتمل ہو جوصالح سماج بنانے کے لیے درکار ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ تمام انسان اپنی عمر کے مرحلۂ تیاری(formative period) میں ماؤں کے زیر تربیت ہوتے ہیں ۔ یہ مائیں ان کو جیسا چاہیں و یسا بنادیں۔ انسانیت کے نظام میں فطرت نے گویا انسان سازی کا چارج ماؤں کے سپرد کیا ہے اور اس کے مطابق انہیں ضروری صلاحیتیں بھی عطا کی ہیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں ذاتی طور پر اس حقیقت کا تجربہ کیا ہے۔ میرے نزدیک ہر ماں فطری طور پر ان مطلوب اوصاف کی حامل ہوتی ہے۔ مگر صرف ایک چیز ہے جس نے ماؤں کو اپنے اس تعمیری کردار کی ادائیگی سے محروم کر رکھا ہے، اور وہ ہے ماؤں کا اولاد کے لیے غیر ضروری لاڈ پیار۔