سنت کی روشنی میں

صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں عن ابی سلمہ عن عائشہ کے حوالہ سے ایک روایت آئی ہے۔ عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھتے پھر آپ فجر کی دو رکعت سنت اور کرتے ۔ اگر میں بیدار ہوتی تو آپ اس کے بعد مجھ سے گفتگو کر تے ورنہ لیٹ جاتے۔ یہاں تک کہ تکبیر کی آواز آتی تو آپ نماز فجر کے لیے مسجد میں چلے جاتے:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى، فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي، وَإِلَّا اضْطَجَعَ حَتَّى يُؤْذَنَ بِالصَّلاَةِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر1167)۔

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي، وَإِلَّا اضْطَجَعَ(صحیح مسلم، حدیث نمبر)۔

ابن حجر العسقلانی نے اپنی کتاب فتح الباری بشرح البخاری میں مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے بعض اور حوالوں کے ساتھ اس روایت کو کچھ دوسرے الفاظ میں بھی نقل کیا ہے۔ ان میں سے دو روایت کے الفاظ یہ ہیں:

كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ اضْطَجَعَ فَإِنْ كُنْتُ يَقْظَى تَحَدَّثَ مَعِي وَإِنْ كُنْتُ نَائِمَةً نَامَ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ(فتح الباری،جلد3، صفحہ 44)۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ عائشہ صدیقہ سے رات کے آخری حصہ میں نماز فجر سے پہلے گفتگو فرماتے تھے۔ تاہم یہ گفتگو استثنائی طور پر صرف رات کو نہیں ہوسکتی۔ اس سے در اصل پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عام طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ آپ کا معمول تھا کہ آپ عائشہ صدیقہ کے ساتھ دینی مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس روایت میں حَدَّثَنِيکا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ مجھ سے حدیث بیان کرتے تھے۔ بلکہ اس کا مطلب وہی ہے جس کو عام طور پر انٹلکچول ایکسچینج کہا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس حد یث سےاور(اس طرح کی دوسری روایتوں سے) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم سنت معلوم ہوتی ہے۔ وہ سنت یہ ہے کہ عورت کو اپنا شریکِ ذہنی(intellectual partner)بنایا جائے ۔ دین و ملت کے مسائل پر گفتگو کر کے عورت کی ذہنی تربیت کی جائے ۔ یہاں تک کہ مرد کے ذہنی سفر میں وہ اُس کی برابر کی شریک بن سکے۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ صدیقہ سے جو گفتگو کر تے تھے اُس کی پوری تفصیل تو آج موجودنہیں۔ مگر بالواسطہ طور پر اُس کے نتیجہ کا ریکارڈ حدیث کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ معلوم ہے، عائشہ صدیقہ سے 2210 روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ مگر دوسرے راویوں کی طرح، یہ صرف اقوا ل ِرسول پر مبنی نہیں ہیں ۔ ان روایتوں کا بڑا حصہ وہ ہے جن کو استنباطاتِ عائشہ کہا جاتا ہے، یعنی عائشہ صدیقہ کے اپنے مستنبط اقوال۔

یہ استنباطات کیا ہیں ۔ اس کو سمجھنے کے لیے یہاں اس کی ایک مثال درج کی جاتی ہے۔ صحیح البخاری میں ایک روایت آئی ہے۔ عائشہ صدیقہ کہتی ہیں:مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا(صحیح البخاری،حدیث نمبر6786)۔ یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے۔

عائشہ صد یقہ کی یہ روایت بتاتی ہے کہ طریقِ کار کے بارے میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کیا تھی ۔ وہ تھی آسان انتخاب(easier option)کو لینا اور مشکل انتخاب (harder option)کو چھوڑ دینا۔ مثلاً نزاعی معاملہ میں متشددانہ طریق کار(violent method)کے مقابلہ میں پرامن طریقِ کار(peaceful method)کا انتخاب کرنا، وغیرہ ۔ عائشہ صد یقہ کی یہ روایت اتنی اہم ہے کہ اس کو مدبّرانہ سیاست کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔ موجودہ زمانہ کی مسلح اسلامی تحریکیں سب کی سب ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔ اس کا واحد سبب بلاشبہ یہی ہے کہ ان تحریکوں میں عائشہ صدیقہ کی مذکورہ روایت سے استفادہ کرتے ہوئے پر امن طریقِ کار کو اختیار نہ کیا جا سکا۔ حالانکہ وہ پوری طرح قابلِ حصول تھا۔ عائشہ صدیقہ کے مذکورہ الفاظ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ نہیں ہیں۔

یہ عائشہ صدیقہ کاذاتی قول یا استنباط ہے۔ پھر عائشہ صدیقہ کو یہ اہم بات کیسے معلوم ہوئی۔ یقینی طور پر ایسا ہوا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ صد یقہ کے درمیان بار بار وہی چیز پیش آئی ہوگی جس کو ہم نے تبادلہ خیال(intellectual exchange)کہا ہے۔ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھ کر ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ دوسرے صحابہ نے بھی آپ کے عمل کو بار بار دیکھا۔ مگرکسی اور صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پالیسی کے بارے میں مذکورہ بات نہیں کہی ۔ یہ گہرا فکر عائشہ صدیقہ کے ذہن میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار گفتگو کے بعد ہی واضح ہوا ہوگا۔ یہ بات اتنی کھلی ہوئی ہے کہ خود قرینہ ہی اس کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

عائشہ صدیقہ کے جو استنباطات ہیں ان کی بنیاد کیا ہے۔ وہ کیسے اس قابل ہوئیں کہ وہ اتنے صحیح قسم کے شرعی استنباطات کرسکیں ۔ اس کا راز پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی وہ گفتگو ئیں ہیں جو شب و روز اور سفروحضر میں جاری رہتی تھیں ۔ عائشہ صدیقہ نہایت ذہین خاتون تھیں ۔ انہوں نے اخّاذ طبیعت پائی تھی۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگوؤں سے وہ روح شریعت اور حقیقت اسلام کا علم حاصل کرتی رہتی تھیں ۔ یہی وہ علم ہے جو استنباطات عائشہ کی صورت میں حدیثوں میں منقول ہوا ہے۔

تجربہ بتاتا ہے کہ مذکورہ قسم کا استنباط سا دہ طور پر نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بار بار گفتگو ہو، سوال و جواب ہو، دو طرفہ تبادلۂ خیال ہو۔ اس طرح کے لمبے ذہنی عمل (intellectual process)کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بات آدمی کے ذہن میں واضح ہو۔ وہ ایک متعین فکر کی صورت میں آدمی کے ذہن میں بیٹھ جائے جس کو وہ بعد میں وضوح (clarity)کے ساتھ بیان کر سکے ۔

عائشہ صدیقہ نے بہت سی ایسی باتیں کہی ہیں جو اُسی صورت میں یا انہی الفاظ کے ساتھ قرآن یا حدیث میں موجود ہیں ۔ وہ تمام تر ان کے اپنے الفاظ میں ہیں ۔ اس قسم کے اقوال کو استنباطات کہا جاتا ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ عائشہ صدیقہ کے یہ ا قوال پیغمبر خدا کی مسلسل صحبت سے اکتسابِ فیض کے نتیجہ میں حاصل شده دینی بصیرت ہے۔ وہ در اصل استفادات ہیں نہ کہ محض استنباطات۔ اس قسم کی گہری دینی بصیرت کی مثال عائشہ صدیقہ کے سوا کسی دوسرے مرد یا عورت کے یہاں نہیں ملتی۔

عائشہ صدیقہ نے اپنے مذکورہ قول میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کو بتایا ہے۔ اور وہ ہے، نزاعی معاملات میں مشکل انتخاب(harder option)کو چھوڑنا اور آسان انتخاب(easier option)کو لے لینا۔ یہ چھوٹا سا قول حکمت و بصیرت کا خزانہ ہے۔ یہ عملی سیاست کا وہی اُصول ہے جس کو موجودہ زمانہ کے مدبّرین نےان الفاظ میں بیان کیا ہے:

Politics is the art of the possible

یہ اصول انتہائی گہری بصیرت پر مبنی ہے۔ پیغمبراسلام  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی ایک مثال صلح حدیبیہ کی صورت میں ملتی ہے۔ یہ اُصول اتنی زیادہ گہری دانش مندی پر مبنی ہے کہ عائشہ صد یقہ کے اس اعلان کے با وجود بعد کی صدیوں میں کوئی مسلم رہنما ایسا نظر نہیں آتا جو اس کو جانے اور اس کو استعمال کرے۔ بدقسمتی سے اس بے خبری کا سلسلہ اکیسویں صدی تک جاری ہے۔ موجودہ زمانہ میں جگہ جگہ مسلم رہنماؤں کی بے فائدہ مسلح جنگ اسی بے خبری کا ایک ثبوت ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ میں پُر امن جدوجہد(peaceful struggle) کے مواقع پوری طرح کھل چکے ہیں جس کی حیثیت بالا شبہ آسان انتخاب کی ہے۔ اس کے باوجودمسلم رہنما غیر ضروری طور پر پُر تشد د جنگ میں مشغول ہیں جو کہ واضح طور پر مشکل انتخاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ محبت کے بغیر صرف قرآن و حدیث کو پڑھ کر بصیرت کا حصول کتنا زیادہ مشکل کام ہے، بلکہ شاید ممکن ہی نہیں ۔

صحیح البخاری میں عائشہ صد یقہ کی ایک روایت آئی ہے۔ اس میں وہ کہتی ہیں کہ قرآن میں سب سے پہلے جو چیز نازل ہوئی وہ مفصل سورتیں تھیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف رجوع ہو گئے تو حرام اور حلال کے احکام اترے اور اگر پہلے ہی یہ اتر تاکہ تم لوگ شراب نہ پیو تو ضرور وہ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ اتر تا کہ تم لوگ زنا نہ کرو تو ضرور وہ کہتے کہ ہم کبھی زنا نہ چھوڑیں گے( صحیح البخاری،حدیث نمبر 4993)۔

جیسا کہ معلوم ہے، عائشہ صدیقہ کی سال پیدائش 613ء ہے، یعنی ہجرت سے نو سال قبل۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر قرآن کا نزول 610ء میں شروع ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جب مکہ میں اترنا شروع ہوا، اس وقت عائشہ صدیقہ پیدا نہیں ہوئی تھیں ۔ مکہ سے مد ینہ کی طرف ہجرت کے وقت و ہ صرف نو سال کی تھیں، یعنی اپنی بچپن کی عمرمیں۔

ایسی حالت میں یہ سوال ہے کہ عائشہ صدیقہ کومکی دور کی آیتوں کے نزول کی حکمت کیسے معلوم ہوئی ۔ جب کہ اس وقت وہ یا تو پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں یا وہ ابھی بہت چھوٹی تھیں ۔ اس کا جواب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ ہجرت کے بعد جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلسل رہنے لگیں تو تبادلہ خیال کے دوران یہ مسائل زیر بحث آئے اور سوال و جواب کے ذریعہ ان کی وضاحت ہوئی ۔ گویا کہ مذکورہ واقعہ کا علم عائشہ صدیقہ کوذاتی مشاہدہ کے ذریعہ نہیں ہوا بلکہ مہبط وحی کے ساتھ گفتگو اور تبادلۂ خیال کے ذریعہ ہوا۔

عائشہ صدیقہ نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں رہ کر جو بات دریافت کی اور مذکورہ روایت میں اس کو بتایا، وہ بے حد اہم ہے۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ اسلام کا طریقہ معاشرہ کی اصلاح کے لیے کیا ہے۔ دوسرے لفظوںمیں،سوشل انجینئرنگ(social engineering)کا وہ طریقہ کیا ہے جس کے ذریعہ کسی معاشرہ میں مثبت اورحقیقی نتائج برآمد کیے جا سکتے ہیں اور انسانی معاشرہ میں حقیقی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ وہ طریقہ ایک لفظ میں یہ ہے کہ پہلے فکری مہم کے ذریعہ افراد کے ذہن کو بدلنا اور پھر سماج کی سطح پر احکامِ شریعت کا نفاذ کرنا۔

عجیب بات ہے کہ یہ حقیقت عائشہ صد یقہ نے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالہ صحبت میں جان لی تھی اور امت کو اس سے باخبر کر دیا تھا۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم رہنما اور مفکرین سارے قرآن و حدیث کو پڑھنے کے باوجوداس اہم حقیقت سے بے خبر رہے اور اب تک بے خبر ہیں ۔ وہ ایک کے بعد ایک مسلم ملکوں میں اقتدار پر قبضہ کر کے اچا نک اسلامی شریعت کے نفاذ کی کوشش کررہے ہیں ۔ مگر ہر بار یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ عائشہ صدیقہ کے الفاظ میں، لوگ یہ کہہ کر قبولیت ِاحکام سے انکار کردیتے ہیں کہ:لاَ نَدَعُ الخَمْرَ أَبَدًا، لاَ نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر4993)۔ اس ناکامی کا سبب یقینی طور پر یہی ہے کہ ذہن سازی کا کام کئے بغیر احکام کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔

الله تعالیٰ نے عائشہ صدیقہ کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں دے کر ان کو اس حقیقت کی معرفت کا موقع دیا اور ان کی زبان سے اس کا اعلان کر ایا۔ مگر عجیب بات ہے کہ لوگ جذباتی سیاست میں اس طرح گُم ہیں کہ اتنے بڑے اہتمام کے باوجود آج بھی وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہورہے ہیں۔

عائشہ بنت ابی بکر الصدیق مکہ میں ہجرت سے نو سال پہلے پیدا ہوئیں اور 67 سال کی عمر میں 58ھ میں مدینہ میں ان کی وفات ہوئی ۔ وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے آخری دس سالوں میں آپ کی اہلیہ کی حیثیت سے برابر آپ کے ساتھ رہیں ۔ اس طرح ان کو یہ موقع ملا کہ وہ علم نبوت سے زیادہ سے زیادہ اکتساب کرسکیں۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس قریبی تعلق کی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ فکری حیثیت سے اسلام کا ایک ماخذ بن گئیں ۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ علم کے اعتبار سے خواتین اسلام میں سب سے زیادہ ممتاز تھیں:افقه نساء المسلمين و اعلمهن بالدين والأدب۔اُن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ اکابر صحابہ ان سے فرائض کے بارے میں پوچھتے تھے اور وہ ہر ایک کو اس کا جواب دیتی تھیں: وكان أكابر الصحابة يسألونها عن الفرائض فتجيبهم۔ وہ روایت و حدیث کے بارے میں مرجع کی حیثیت رکھتی تھیں: وكانت مرجعاً في الرواية والحديث(الاعلام للزرکلی، جلد3، صفحہ240)۔

عائشہ صدیقہ کے اندر یہ اعلیٰ صفت اپنے آپ پیدا نہیں ہوسکتی ۔ وہ یقینی طور پر پیغمبر کے ساتھ مسلسل فکری استفاده کا نتیجہ تھی۔

اسلام کا ایک اہم مطلوب وہ ہے جس کو اضافۂ ایمان یا ازدیادِ ایمان کہا گیا ہے۔ اس سے مراد ذہنی ارتقاء(intellectual development)ہے۔ یعنی دین اور تقویٰ کے اعتبار سے انسان کے اندر مسلسل اضافہ ہونا ۔ آدمی کی ایمانی شخصیت میں مسلسل ارتقا کاعمل جاری رہنا۔

ایمانی ارتقاء یا ذہنی اضافی کایہ عمل مختلف ذرائع سے ہوتا ہے۔ قرآن میں تدبّر کرنا، اللہ کو یاد کرنا اور اس کے بارے میںغوروفکرکرنا، مخلوقاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرنا اور اُس کے حکیمانہ پہلوؤں کے بارے میںسوچنا۔ اس عمل کے دوران انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ اس نے دین کے بارے میںجو کچھ پایا ہے اس پر وہ کسی سے تبادلۂ خیال(intellectual exchange)کرے۔ اس تبادلۂ خیال کے دوران افکار کی وضاحت ہوتی ہے۔ معاملہ کے نئے نئے پہلو سامنے آتے ہیں ۔ اپنے یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ تبادلۂ خیال ذہنی ارتقاء کے لیے بے حد ضروری ہے۔

یہ تبادلۂ خیال ہر شخص کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر کے بارے میں آیا ہے کہ وہ ہر ایک سے بات کر کے اُس سے کچھ نہ کچھ سیکھتے تھے(كان يتعلم من كل احد)۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص اس مقصد کے لیے کسی کو مستقل طور پر اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ اس اعتبار سے کسی آدمی کا مسلسل رفیق صرف ایک ہوسکتا ہے، اور وہ اُس کی بیوی ہے۔ ہر آدمی کی یہ ایک علمی اور دینی ضرورت ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تعلیم و تربیت دے کر اس قابل بنائے کہ وہ حقیقی معنوں میں اس کی انٹلکچول پارٹنر(ذہنی رفیق)بن سکے۔

پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ وہ اہل اسلام کے لیے ہر اعتبار سے ایک کامل نمونہ ہیں ۔ چنانچہ آپ نے شریک حیات کی نسبت سے بھی لوگوں کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ قائم کیا ہے۔ آپ کے اس نمونہ کاتعلق محد ودطور پر صرف عائشہ صدیقہ سے نہیں ہے بلکہ وہ ایک عام اصول ہے۔ اس کا تعلق دوسری خواتین سے بھی ہے۔ اس سلسلہ میں یہاں آپ کی اہلیہ ام سلمہ کا ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے جو اس معاملہ کی وضاحت کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی دور میں جب قریش مکہ سے وہ معاہدہ کیا جو معاہدۂ حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے تو صحابہ میں سخت بے چینی پھیل گئی۔ کیوں کہ یہ معاہدہ بظاہر دب کر کیا گیا تھا اور اس میں کئی باتیں صریح طور پر مخالفین کے حق میں تھیں۔ چنانچہ لوگوں میں بہت زیادہ غم و غصہ تھا۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد آپ نے لوگوں کو بتایا کہ اب ہمیں مکہ نہیں جانا ہے بلکہ حدیبیہ سے واپس ہو کر مدینہ جانا ہے۔ اس لیے قربانی کے جانور جو تم اپنے ساتھ لائے ہو، ان کو یہیں ذبح کر دو اور سر منڈا لو۔ مگر کوئی بھی شخص اس کے لیے نہ اُٹھا ۔ آپ نے تین بار اپنے حکم کو دہرایا پھر بھی تمام لوگ خاموش رہے اور کوئی اپنی جگہ سے نہ اٹھا۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم رنج کی حالت میں وہاں سے لوٹ کر اپنے خیمہ میں گئے جہاں آپ کی اہلیہ ام سلمہ موجو تھیں ۔ انہوں نے آپ کوغمگین دیکھ کر اس کا سبب پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ آج وہ ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میں نے مسلمانوں کو حکم دیا مگر ان میں سے کوئی بھی میرے حکم کا تعمیل کے لیے نہیں اُٹھا۔ ام سلمہ نے کہا:اے خدا کے رسول، اگر آپ کی رائے یہی ہے تو آپ میدان میں جائیں اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنی قربانی کا جانور ذبح کر دیں اور اپنا سرحلق کروالیں ۔ اس طرح لوگ جان لیں گے کہ بات ختم ہوگئی، اب کچھ اور ممکن نہیں۔

آپ خیمہ سے باہر نکلے اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنی قربانی ذبح کی اور نائی کو بلا کر سر منڈایا۔ اس کے بعد ہر ایک نے اُٹھ کر اپنی اپنی قربانی کے جانورذبح کیے اور اپنا سرمنڈا لیا۔ اگرچہ ان کے رنج وغم کا حال یہ تھا کہ راوی کہتے ہیں کہ جب وہ ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کاسرکاٹ ڈالیں گے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2732)۔

مذکورہ واقعہ کوئی سا دہ واقعہ نہیں ۔ وہ در اصل اسی چیز کی ایک کامیاب مثال ہے جس کو ہم نے مرد اور عورت کے درمیان انٹلکچول ایکسچینج(intellectual exchange)کا نام دیا ہے۔ یقیناً رسول اور زوجۂ رسول کے درمیان اس موقع پر ایک مکمل گفتگو ہوئی ہوگی ۔ اس کے بعد وہ صورت پیش آئی جس کا حدیث وسیرت کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ اس قسم کا حل ہمیشہ اس وقت سامنے آتا ہے جب کہ دو آدمی باہم گفتگو اور تبادلۂ خیال کریں۔ اس طرح کا حل کبھی خلا میں پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ دوطرفہ گفتگو کا نتیجہ ہوتا ہے۔

پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ام سلمہ نے جو بات کہی وہ بے حد اہم تھی ۔ اس میں یہ حکمت تھی کہ پیغمبر خود جب اپنا اونٹ ذبح کردیں گے اور اپنا سرحلق کروالیں گے تو اس کے دیکھنے کے بعد وہاں کے موجود مسلمان یہ سمجھ لیں گے کہ اب معاملہ ختم ہوگیا۔ اب ہم لوگوں کو عمرہ کے لیے مکہ کا سفر نہیں کرنا ہے بلکہ حدیبیہ ہی سے و اپس ہو کر مدینہ جانا ہے۔ جب یہ بات عملاً لوگوں پر کُھل جائے گی تو اس کے بعد لوگوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا کہ وہ حدیبیہ میں اپنی قربانی کا جانور ذبح کریں او رحلق کروالیں۔ چنانچہ یہی ہوا کہ جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قربانی کا جانور ذبح کر دیا تو دوسروں نے بھی اپنے جانور ذبح کر کے حلق کروالیا۔

ام سلمہ کے اندر یہ حکیمانہ فکر کیسے پیدا ہوئی ۔ یقینا ًوہ پیغمبر کے ساتھ گفتگو اور تبادلۂ خیال کے ذریعہ حاصل ہوئی ۔ اس اعتبار سے گویا ام سلمہ صرف زوجۂ رسول نہیں بلکہ وہ مدرسۂ نبوت کی ایک طالبہ تھیں ۔ اپنی اسی حیثیت کی بنا پر اُنہیں یہ حکمت حاصل ہوئی جس کی ایک مثال اوپر کے واقعہ میں نظر آتی ہے۔

اسلام میں زندگی کا جو فطری نقشہ بتایا گیا ہے اس کا ایک جز ء بلا شبہ یہ بھی ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر عورت اور مرد کو جو بامقصد زندگی گزارنی ہے، اس میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے صرف شر یکِ خانہ نہیں ہیں بلکہ وہ پورے معنوں میں ایک دوسرے کے لیے شریکِ زندگی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے عملی رفیق بھی ہیں اور اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے فکری رفیق بھی۔

عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے فکری مشیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں کے درمیان جس طرح ڈسکشن ہوسکتا ہے ویسا ڈسکشن کسی اور کے ساتھ ہونا سخت مشکل ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے کتناز یادہ اہم ہیں ۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی لا زمی ضرورت ہیں۔

ایک عورت اور ایک مردجب ازدواجی رشتہ کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرتے ہیں تو گویا کہ دونوں اپنے لیے فطری انداز میں وہ ساتھی پا لیتے ہیں جن میں سے ہر ایک دوسرے کو سمجھے اور ہر ایک دوسرے کا انٹیلکچول پارٹنر بن جائے۔

اسی سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ شادی شدہ زندگی کو ہر حال میں نبھانا چاہیے۔ کسی بھی عذر کی بناپر اس کو طلاق کی حد تک نہیں جانے دینا چاہیے۔ شادی شدہ زندگی شروع کرنے کے بعد گو یا عورت اور مرد اپنی ایک تاریخ شروع کرتے ہیں ۔ ایسی حالت میں طلاق اور تفریق کی حیثیت گویا بر یک ان ہسٹری(break in history)جیسی ہے ۔ لوگ اگر اس حقیقت کو جا نیں تووہ طلاق کی صورت میں بر یک ان ہسٹری کے مہلک انجام سے اس طرح بچیں جس طرح ایک سرکاری ملازم ایک ایسے فعل سے بچنے کا اہتمام کرتا ہے جو اس کے لیے بر یک ان سروس(break in service)کے ہم معنیٰ ہو۔

عورت اور مرد کے درمیان اس قیمتی تعلق کو وجود میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اس معاملہ میں باشعور ہوں ۔ نفسیات بتاتی ہے کہ اس باہمی تعلق کو قائم کرنے میں جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ مرد کی طرف سے اس کی بڑھی ہوئی انانیت ہے، اور عورت کی طرف سے اس کی بڑھی ہوئی انفرادیت(individuality)۔ ضروری ہے کہ دونوں اس معاملہ میں اپنی اپنی کمزوری سے واقف ہوں۔ مرد اپنی انا پر کنٹرول کرے اور عورت اپنی انفرادیت کو اس کی حد کے اندر رکھے۔ یہ دونوں کے لیے گویا نفسیاتی مینجمنٹ(management) کا معاملہ ہے۔ یہی وہ تدبیر ہے جس کے ذریعہ دونوں اپنی ذاتی زندگی کوبھی مفید بنا سکتے ہیں اور سماج کے لیے بھی زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom