فریدہ خانم
اس سلسلہ میں تیسرا نام میری لڑ کی فریدہ خانم کا ہے ۔ فریدہ خانم کی پیدائش 2 مئی 1952 کو اعظم گڑھ میں ہوئی ۔ ان کی صحت اگر چہ بچپن سے اچھی نہ تھی مگر انھوں نے غیر معمولی محنت کے ذریعہ اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پرائیوٹ طور پر ہائی اسکول اور پری یو نیورسٹی کے امتحانات پاس کئے ۔ پھر انہوں نے دلی کالج (نئی دہلی )سے بی اے (انگلش آنرس) کا امتحان پاس کیا ۔ اس کے بعد انھوں نے دہلی یونیورسٹی سے انگلش لٹر یچر میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی)سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ اور پھر جامعہ ملیہ ہی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ اب وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی)میں اسلامک اسٹڈیز کے ڈپارٹمنٹ میں ریڈر ہیں ۔
فریدہ خانم کا حصہ(contribution)ہمارے مشن میں اتنا زیادہ ہے کہ شاید اس کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ 1976 میں جب میں نے ماہنامہ الرسالہ جاری کیا تو مضامین کی تیاری کے سوا دوسرے اکثر کاموں کو انھوں نے اپنے ذمہ لے لیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک وہ ہمارے اس مشن سے پوری طرح جڑی ہوئی ہیں ۔ جہاں تک الرسالہ مشن کے انتظامی معاملات اور اس کو عالمی سطح پر پھیلانے کا معاملہ ہے، اُس کو میرے لڑ کے ثانی اثنین خاں نے بخوبی طور پر سنبھال رکھا ہے اور تحریری امور میں معاونت کا کام فریدہ خانم نے ۔ یہاں میں صرف چند مثالوں کا ذکر کروں گا تا کہ فریدہ خانم کے ان کاموں کا اندازہ ہو سکے جو انھوں نے قربانی کی سطح تک جا کر انجام دیے ہیں ۔
میرا تجربہ ہے کہ جب بھی کسی شخص نے میرے مشن میں کوئی تعاون کیا تو اس نے یہ ضرور چاہا کہ اس کا نام لوگوں کے علم میں آئے ۔ اپنے تجربہ کے مطابق، میں نے فریدہ خانم میں وہ انوکھی صفت پائی ہے جس کو ایک مقولہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: نیکی کر دریا میں ڈال۔ کسی مِشن میں بے غرضانہ تعاون شاید عورت ہی کے لیے ممکن ہے۔ یہ مزاج شاید مرد کو بہت کم دیا گیا ہے۔
میری کتاب مذہب اور جدید چیلنج پہلی بارعلم جد ید کا چیلنج کے نام سے 1964 میں لکھنؤ سےچھپی۔ یہ کتاب کافی مقبول ہوئی اور کئی زبانوں میں اس کے تر جمے ہو ئے ۔ عربی زبان میں یہ کتاب الاسلام يتحدی کے نام سے شائع ہوئی ۔
لوگوں کا مسلسل اصرار تھا کہ اس کتاب کا ترجمہ انگریزی میں شائع کیا جائے ۔ کئی لوگوں نے بطور خود اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کی کوشش بھی کی، مگر وہ ناکام رہے۔ اس سلسلہ میں اہم سوال یہ تھا کہ اس کتاب میں کثرت سے انگریزی کتابوں کے اقتباسات ہیں۔ یہ تمام اقتباسات اردو ترجمہ کی صورت میں تھے۔ دوسری زبانوں میں ترجمہ کے وقت کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی ۔ کیوں کہ مترجمین کو خودبھی صرف ترجمہ کرنا تھا۔ لیکن انگریزی ترجمہ کی صورت میں ضروری تھا کہ ان تمام اقتباسات کی اصل موجود ہوں، کیوں کہ انگریزی کا دو بارہ انگریزی میں ترجمہ کرنا درست نہ تھا۔
کئی انگریزی داں افراد جنھوں نے کتاب کا ترجمہ کرنا چاہا، انھوں نے مجھ سے اصل انگریزی عبارت طلب کی ۔مگر مشکل یہ تھی کہ خود میرے پاس اصل کتابیں موجودنہ تھیں۔ میں نے یہ کتاب’’ مذہب اور جد ید چیلنج‘‘ لمبی مدت کے دوران لکھی تھی۔ اس کے لیے میں نے کئی سفربھی کئے تھے ۔ مختلف مقامات کی لائبریریوں یا مختلف اہل علم کے ذاتی کتب خانوں سے کتابیں لے کر اپنی کتاب تیار کی تھی ۔ اب مجھے یہ بھی یاد نہ تھا کہ میں نے کون سی کتاب کہاں سے حاصل کی تھی۔ یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ ذاتی طور پر میں نے سمجھ لیا تھا کہ میری اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی نہ ہو سکے گا۔
فریدہ خانم نے میری فرمائش کے بغیر خود ہی خاموشی کے ساتھ یہ کام شروع کیا۔ انھوں نے رات دن ایک کر کے مختلف لائبریریوں میں ان کتابوں کی تلاش شروع کردی ۔ علی گڑھ کی آزاد لائبریری، دہلی کی پبلک لائبریری، دہلی یونیورسٹی اور دوسری یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں انھوں نے لمبی مدت تک اپنی کوشش جاری رکھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے تمام کتابوں کے اصل اقتباسات پورے حوالے کے ساتھ حاصل کر لیے۔
غالباً اس معاملہ میں ان کو پہلا خیال اس وقت آیا جب کہ مسٹر اکرام الدین احمد (IAS) کی طرف سے ایک لمبی فہرست ملی۔ انھوں نے میری کتاب مذہب اور جد یدچیلنج کا مطالعہ کر کے ان تمام کتابوں کی ایک مکمل فہرست کئی صفحات میں ٹائپ کرکے بھیجی۔انہوں نےیہ فہرست اس لیے بھیجی تھی کہ میں انہیں یہ تمام کتابیں فراہم کروں ۔ میں یہ کتابیں ان کو فراہم نہ کرسکا مگر ان کی بنائی ہوئی یہ فہرست فریدہ خانم کے لیے ایک محرک بن گئی۔ انھوں نے اس فہرست کو لے کر تمام لائبریریوں میں چھان بین شروع کر دی۔ آخر کار انھوں نے تمام انگریزی اقتباسات حاصل کر لیے اور پھر ان اقتباسات کو شامل کرتے ہوئے پوری کتاب کا ترجمہ تیار کر لیا۔ یہ ترجمہ کئی مراحل سے گز را، یہاں تک کہ وہ مکمل ہو کر پہلی بار 1985 میں دہلی سے چھپا۔ اس کتاب کا نام گا ڈارائزز (God Arises) ہے اور وہ 288 صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ بلا شبہ بے غرضانہ تعاون کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ میر اذاتی احساس یہ ہے کہ اس قسم کا کامل بے غرضانہ تعاون شاید ایک عورت ہی کرسکتی ہے۔ ایسے بے غرضانہ تعاون کے لیے جن لطیف صلاحیتوں کی ضرورت ہے، وہ شاید خالق نے مرد کوکم دیے ہیں۔ یہ انوکھی صفت خصوصی طور پر شاید صرف عورت کا حصہ ہے۔
دوسرا واقعہ جس کا میں یہاں ذکر کر نا چاہتا ہوں، وہ سوئزرلینڈ کے ایک سفر کے دوران جولائی 2002 میں پیش آیا۔ مختلف مغربی ملکوں کے تعاون سے ایک انٹرنیشنل ادارہ قائم ہوا ہے۔ اس ادارہ کا نام نیو کلیر ڈس آر ما منٹ فورم (Nuclear Disarmament Forum) ہے۔ اس ادارہ کے تحت سوئٹزر لینڈ کے تاریخی شہرزُ گ (Zug) میں ایک عالمی کانفرنس ہوئی جس میں مختلف ملکوں کے پروفیسر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بلائے گئے۔ ان کی دعوت پر میں بھی اس کانفرنس میں شریک تھا۔
29 جولائی کی صبح کو صدر کا نفرنس آندرے بیکوف نے اعلان کیا کہ ہم کوانٹر نیشنل پیس کے موضوع پر ایک ڈاکومنٹ کی ضرورت ہے۔ اس کو ہم مختلف زبانوں میں شائع کر کے پوری دنیا میں پہنچائیں گے ۔ اس کے بعد انھوں نے شرکاء کانفرنس کے تین گروپ بنائے۔ انھوں نے کہا کہ آپ میں سے ہر ایک الگ الگ حلقہ میں بیٹھے اور اپنا اپنا ڈاکومنٹ پائے ۔ اس میں سے ایک ڈاکومنٹ کو منتخب کر کے ہم کل صبح کے اجلاس میں پیش کریں گے۔ چنانچہ ہر گروپ نے دو دن کی متحدہ کوشش سےاپنا اپنا ڈاکومنٹ بنایا اور پھراسے آندرے بیکوف کے حوالہ کردیا۔
رات کو تقریباًدس بجے جب کہ میں اپنے کمرے میں اکیلا تھا اور نمازِ عشاء سے فارغ ہو کر سونے کی تیاری کر رہا تھا، اچانک آندرے بیکوف میرے کمرہ میں آئے ۔ و ہ غمگین دکھائی دیتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ تینوں گروپ نے اپنا اپنا ڈاکو منٹ مجھے دیا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی مجھے پسند نہیں آیا۔ میں سخت پریشان ہوں کہ کل صبح کے اجلاس میں میں لوگوں کے سامنے کیا چیز پیش کروں گا۔ انھوں نے کہا کہ پریشانی کے عالم میں میں یہاں کے چرچ میں چلا گیا۔ وہاں میں نے دعائیں کیں ۔ آخر کار میرے دل میں آیا کہ یہ کام صرف آپ کر سکتے ہیں ۔ آپ میرا مطلوب ڈاکومنٹ تیار کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں صبح کو دوبارہ آپ سے ملوں گا ۔ مجھے یقین ہے کہ اس وقت تک آپ یہ ڈاکومنٹ تیار کر چکے ہوں گے۔ میں حیرانی کے عالم میں تھا اور ان کا کوئی جواب بھی نہیں دے پایا تھا۔ وہ مجھے اسی حال میں چھوڑ کر میرے کمرہ کے باہر چلے گئے ۔
میری لڑ کی فریدہ خانم بھی میرے ساتھ اس سفر میں گئی تھیں ۔ وہ اسی ہوٹل کے دوسرے کمرہ میں ٹھہری ہوئی تھیں ۔ میں نے ٹیلی فون کر کے انہیں بلایا ۔ وہ آئیں تو میں نے ان سے آندرے بیکوف کا قصہ بیان کیا ۔ میں نے کہا کہ بڑے بڑے عالمی پروفیسر اور انگریزی کے ماہر ین جس کام کو نہ کر سکے، اس کو میں کس طرح کر سکتا ہوں ۔ میں اس معاملہ میں اپنے آپ کو بالکل عاجز محسوس کرتا ہوں۔ مگر فریدہ خانم کارد عمل بالکل مختلف تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس پوری ایک رات ہے۔ ہم خدا سے دعا کریں گے اور رات بھر جاگ کر اس کو تیار کریں گے۔ ان کے ایک گھنٹہ کے اصرار کے بعد آخر کار میں راضی ہو گیا ۔
اس کے بعد میں فریدہ خانم کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پہلے میں نے ڈاکو منٹ کے بارے میں ان سے ڈسکشن کیا۔ آخر کار اس کا ایک واضح خاکہ بن گیا ۔ اب فریدہ خانم نے اس کو لکھنا شروع کیا ۔ میں اپنے خیالات کچھ انگر یز ی میں اور کچھ اردو میں بولتا تھا اور فریدہ خانم اس کو انگریزی زبان میں لکھتی جا رہی تھیں۔ اس عمل میں کئی گھنٹے لگ گئے ۔ آخر کار چند صفحہ پر مشتمل اس کا مضمون تیار ہو گیا ۔ اگر چہ جب وہ تیار ہواتو فجر کا وقت شروع ہو چکا تھا۔
اس کے بعد ہم دونوں نے فجر کی نماز پڑھی ۔ صبح کی چائے کے بعد فریدہ خانم نے یہ کیا کہ انھوں نے کانفرنس کے آفس میں جا کر تین صفحے کے ڈاکومنٹ کو کمپیوٹر پرٹائپ کیا۔ اور پھر پرنٹ آؤٹ کے ذر یعہ اس کی چند کاپیاں نکالیں اور اسی وقت اس کو آندر ے بیکوف کے حوالہ کر دیا۔
ڈاکومنٹ کو پڑھنے کے بعد آندرے بیکوف دو بارہ میرے کمرہ میں آئے ۔ کل کے برعکس، آج وہ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ڈاکو منٹ کی ایک کاپی تھی ۔ انھوں نے کہا کہ میں ایساہی ڈاکومنٹ چاہتا تھا۔ اب میں اس ڈاکومنٹ کو آج کے اجلاس میں پیش کروں گا اور اس کو منظور کروا کر ساری دنیا میں اس کو پھیلاؤں گا۔ انھوں نے کہا کہ پیس کے موضوع پر اب تک میں نے اس سے واضح کوئی ڈاکومنٹ نہیں دیکھا۔
یہ ڈاکومنٹ میری 136 صفحہ کی کتاب آئیڈیالوجی آف پیس(شائع شدہ 2003)میں شامل ہے۔ یہی وہ ڈاکومنٹ تھا جو ابتدائی طور پر اس کا ذریعہ بنا کہ امن عالم کے بارے میں میرے نظریات اور میری کوششیں انٹرنیشنل سطح پر نمایاں ہوں ۔ اس کے بعد اس سلسلہ میں مزید واقعات ہوئے ۔ یہاں تک که 12 اکتوبر 2002 کو سوئزرلینڈ میں مجھے پیس کا انٹرنیشنل ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ سابق روسی صدر میخائل گوربا چوف نے دیا۔ اس واقعہ کی تفصیل سفرنامہ سوئزرلینڈ مطبوعہ ماہنامہ الرسالہ اگست 2003 میں دیکھی جاسکتی ہے۔ فریدہ خانم کا یہ بے غرضانہ کنٹری بیوشن قدرت کے اس انوکھے معجزہ کو بتاتا ہے جو اس نے عورت کی شخصیت میں فطری طور پر رکھ دیا ہے۔
فریدہ خانم کا میری زندگی میں جو حصہ ہے اس کا ایک پہلو وہ ہے جس کا تعلق روزانہ کی زندگی سے ہے۔ یعنی علمی اور دینی موضوعات پر ڈسکشن کرنا۔ یہ ڈسکشن کوئی ساده چیز نہیں۔ وہ فکری ارتقاء کے عمل (process) میں لازمی جزء کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ میں کبھی جمود ذہنی کا شکار نہیں ہوا۔ میرے اندر فکری ارتقاء مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس فکری ارتقاء کے جو وسائل ہیں ان میں سے ایک وسیلہ بلا شبہ فریدہ خانم کے ساتھ میر اوہ علمی ڈسکشن ہے جو بلا ناغہ ہر روز جاری رہتا ہے۔ اس اعتبار سے میں فریدہ خانم کو اپنا فکری معاون (intellectual assistant) کہتا ہوں ۔
اس معاملہ کی ایک مثال زیر نظر کتاب (عورت معمارِ انسانیت)میں بھی موجود ہے۔ اس کتاب کو تیار کرنے کے بعد میں نے اس کے آخر میں ایک مختصر تحریرلکھی جو کتاب کے آخر میں ڈیڈی کیشن(dedication) کے عنوان سے شامل ہے۔ اس تحریر میں میں نے لکھا تھا کہ ہاجرہ ام اسماعیل نے قدیم دور میں ایک قربانی دی جس کے نتیجہ میں انسانی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا۔ اب ضرورت ہے کہ دوبارہ ایک عورت اُٹھے جو ہاجرہ کا رول ادا کرے...
یہ تحریر تیار کرنے کے بعد میں نے حسب معمول اس کو فریدہ خانم کو دکھایا ۔ فریدہ خانم نے اس کو پڑھنے کے بعد کہا کہ دوسرے دور کے کارنامہ کے لیے صرف ایک عورت کی بات لکھنا ٹھیک نہیں۔
بہتر ہے کہ اس کو عام بنا دیا جائے۔ تاکہ ہر عورت اپنے آپ کو اس کا مخاطب سمجھے۔ ہر عورت یہ سمجھے کہ مجھے بھی یہ رول ادا کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے عبارت میں ترمیم کر کے اس کو فریدہ خانم کے مشورہ کے مطابق کر دیا۔
میرے تجر بہ کے مطابق، اس قسم کے مفید ڈسکشن کے لیے بھی عورت بے حد موزوں ہوتی ہے۔ اپنی مختلف فطری خصوصیات کی بنا پر وہ اس کام کو نہایت بہتر طور پر کرسکتی ہے۔ فریدہ خانم کی لمبی مدت تک جس طرح الرسالہ مشن سے جڑی رہیں، وہ ان کے لیے کوئی سادہ معاملہ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مدت میں ان کے سامنے غیر معمولی رکاوٹیں آئیں، انہیں انتہائی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا، اس کے باوجودمشن کے ساتھ ان کی وابستگی کم نہ ہوسکی ۔ فریدہ خانم کے اس تجر بہ میں مجھے عورت کی ایک انتہائی اہم صفت دریافت ہوئی اور وہ اٹوٹ و فاداری ہے۔ کسی مقصد کے ساتھ تعلق اگر صرف عقلی بنیاد پر ہو تو وہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عقلی اطمینان کے علاوہ مقصد کے ساتھ گہری قلبی وابستگی بھی ضروری ہے۔ یہی قلبی وابستگی اس بات کی ضامن ہوتی ہے کہ شکایتوں کے با وجود مقصد کے ساتھ تعلق آخر تک قائم رہے۔
اصل یہ ہے کہ عورت فطری طور پر ایموشنل(emotional)ہوتی ہے۔ یہ صفت مرد کے اندر نسبتاًکم پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی خاص مانع سبب نہ ہو تو عورت کو بہت جلد مقصد یا مشن کے ساتھ جذباتی لگاؤ(emotional attachment)قائم ہو جاتا ہے۔ یہی جذباتی لگاؤ اس کو مقصد کے ساتھ مستقل طور پر جوڑے رہتا ہے۔ یہ بے غرضانہ تعلق کسی مقصد کی کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت ہے، اور اس قسم کا بے غرضانہ تعلق عورتوں کے اندر مردوں سے زیادہ پایا جاتا ہے۔
میرے علم کے مطابق، ہر عورت امکانی طور پر وہی ہے جس کا تجربہ میں نے فریدہ خانم کی صورت میں کیا۔ہر عورت پیدائشی طور پرفریدہ جیسی ہی ہے۔ مگریہ بھی ایک واقعہ ہے کہ ہر عورت فریدہ جیسی خاتون نہیں بن پاتی۔ تاہم اس کی ذمہ داری تمام تر مرد کے اوپر ہے۔ مردوں کا عام طور پر یہ حال ہے کہ وہ عورت کو بس تفر یح یا گھرداری کی چیز سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے عورت کے فطری امکان(potential)کو دریافت نہیں کیا۔ اور جس چیز کو آپ دریافت نہ کرسکیں، اس کو آپ استعمال بھی نہیں کر سکتے۔
ہر مرد کے لیے عورت ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ مگر یہ سرمایہ بالقوہ(potential) صورت میں ہے۔ یہ مرد کا کام ہے کہ وہ اس بالقوہ کو دریافت کر کے اسے بالفعل تک پہنچائے۔ وہ فطرت کے امکان کو واقعہ کی صورت میں ڈھال لے۔
مرد کی اس کمزوری کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ مسلسل طور پر بے فائده مشغولیت (idle business) میں لگا رہتا ہے اور عورت کو بھی اسی میں مشغول رکھتا ہے۔ شاپنگ، آؤٹنگ، سوشلائزنگ اور پارٹیاں و غیره، بلاشبہ وقت کا بے فائدہ استعمال ہیں ۔ مردیہ کرتا ہے کہ وہ عورت کو انہیں بے فائدہ سرگرمیوں میں مشغول رکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ عورت کو کچھ اور کرنے یا سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ دبئی میں ایک لائق خاتون کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے وقت کا زیادہ حصّہ بس کھانے پینے کے انتظام میں صرف کرتی ہیں ۔ میں نے ان سے کہا:
you are under-using your potential
بعد کو مجھے معلوم ہوا کہ مذکورہ خاتون کے اس کم تر استعمال کی ذمہ داری ان کے شوہر کے اوپر ہے۔