روایتوں کی تصحیح
عائشہ صدیقہ کا ایک منفرد کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بہت سی ایسی روایتوں کی تصحیح کی جو پیغمبر اسلام کے قول کی صحیح ترجمانی نہیں کر رہی تھیں۔ پیغمبر اسلام سے جو حدیثیںمنقول ہیں وہ زیادہ تر مجلس کی گفتگو سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ کوئی صحابی مجلس کے درمیان میں آیا۔ اُس نے آپ کی گفتگو کا کچھ حصہ سنا اور کچھ حصہ نہیں سُنا۔ اسی طرح کسی صحابی نے پیغمبر اسلام کی ایک بات سُنیمگر وہ اس سے با خبر نہ تھا کہ آپ نے یہ بات کس بیک گراؤنڈ میں کہی ہے۔
اس طرح کے مختلف اسباب سے بعض صحابہ کی روایتوں میں ابہام واقع ہو گیا۔ اُن کی بیان کردہ روایت سے پیغمبر اسلام کی صحیح ترجمانی نہ ہو سکی۔ یہ کام عائشہ صدیقہ نے انجام دیا۔ عائشہ صدیقہ کو آپ کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے ہر روز آپ کی صحبت ملتی تھی۔ وہ آپ کی رفیقۂ حیات ہونے کی وجہ سے اس پوزیشن میں تھیں کہ وہ با توں کو زیادہ تفصیل سے اور زیادہ گہرائی کے ساتھ جان سکیں۔ چنانچہ اپنی اس امتیازی صفت کی بنا پر اُنہوں نے یہ اہم کام انجام دیا کہ صحابہ کی جن روایتوں میں پیغمبر اسلام کے ارشاد کی ترجمانی خلاف واقعہ ہوئی تھی اُن روایتوں کو اُنہوں نے اُن کی صحیح صورت میں پیش کیا۔ روایات میں اس قسم کی تصحیح کو محدثین کی اصطلاح میں استدراک کہا جاتا ہے۔ متعدد ائمہ حدیث نے ان استدر اکات کو یکجا کیا ہے۔ اسی قسم کا ایک رسالہ وہ ہے جس کو جلال الدین السیوطی نے تیار کیا۔ اس رسالہ کا نام یہ ہے:عين الاصابة في استدراك عائشة على الصحابة(قاہرہ، 1988)۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لیے یہاں اس نوعیت کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:
ا۔ صحیح البخاری کی ایک روایت کے مطابق، عبد اللہ بن عمر نے غسل کے بارے میں روایت کر تے ہوئے کہا: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَنْ جَاءَ مِنْكُمُ الجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ(صحیح البخاری،حدیث نمبر894)۔یعنی، میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جو شخص جمعہ میں آئے اس کو چاہیے کہ وہ غسل کرے۔
عبد اللہ بن عمر نے مذکورہ حدیث کو سادہ طور پر بیان کیا۔ بظاہر اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ایک مطلق حکم ہے۔ مگر اسی حدیث کو عائشہ صدیقہ نے روایت کیا تو انہوں نے اس کا سبب بھی بیان کر دیا۔ یہ سبب اُنہوں نے یقینی طور پر پیغمبر اسلام کی صحبت سے معلوم کیا تھا۔ عائشہ صدیقہ حدیث کو اس طرح بیان کرتی ہیں:
قَالَتْ:كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ يَوْمَ الجُمُعَةِ مِنْ مَنَازِلِهِمْ وَالعَوَالِيِّ، فَيَأْتُونَ فِي الغُبَارِ يُصِيبُهُمُ الغُبَارُ وَالعَرَقُ، فَيَخْرُجُ مِنْهُمُ العَرَقُ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِنْهُمْ وَهُوَعِنْدِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَوْ أَنَّكُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِيَوْمِكُمْ هَذَا(صحیح البخاری،حدیث نمبر902)۔
یعنی،لوگ اپنے اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادیوں سے جمعہ کے روز آتے اور وہ گرد و غبار اور پسینہ میں ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ اُن میں سے ایک شخص آپ کے پاس آیا، اس وقت آپ میرے پاس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ بہتر ہوتا اگر تم اس دن غسل کر لیا کرتے۔
عبد اللہ بن عمر کی روایت میں قول رسول کو مطلق طور پر نقل کیا گیا ہے جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ غسل گو یا جزء نماز ہے۔ مگر عائشہ صدیقہ نے اس قول رسول کو اس کے صحیح پس منظر میں بیان کیا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غسل کی حیثیت ایک جسمانی ضرورت کی ہے، وہ نماز کا عبادتیجزء نہیں۔
2۔ عبد اللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور بعض صحابہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: إِنَّ المَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1286)۔ یعنی۔مر وہ پر اُس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔
یہ روایت جب عائشہ صدیقہ کے سامنے بیان کی گئی تو اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دن آپ ایک یہودی عورت کے جنازہ پر گزرے،اُس کے رشتہ دار اُس پر رو رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ رو رہے ہیں جب کہ اس عورت پر عذاب ہو رہا ہے(صحیح مسلم، حدیث نمبر 932)۔
عائشہ صدیقہ کا کہنا یہ ہے کہ رونا عذاب کا سبب نہیں ہے۔ بلکہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ یعنی نوحہ کر نے والے اس کی موت پر رو رہے ہیں جب کہ مرنے والا اپنے گذشتہ اعمال کی سزا میں مبتلا ہے۔ رو نا دوسروں کا فعل ہے جس کا عذاب یہ رونے والے خود أٹھائیں گے۔ مردہ اس کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ ہر شخص اپنے فعل کا خود جواب دہ ہے۔
مذکورہ قول رسول کے بارے میں عائشہ کی یہ وضاحت بتاتی ہے کہ اس طرح کے معاملات میں پیغمبر اور عائشہ کے درمیان باقاعدہ گفتگو ہوتی تھی۔ اس گفتگو کے دوران عائشہ پر وہ باتیں کھلتی تھیں جس سے عام لوگ بے خبر رہتے تھے۔
3۔ غزوۂ بدر میں جو مشرکین مارے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے مقام دفن پر کھڑے ہو کر فرمایا:فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا(7:44)۔خدا نے تم سے جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے اُس کو سچا پایا۔
صحابہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، آپ مردوں کو پکارتے ہیں۔ ابن عمرغالباًعمر سے اور انس بن مالک ابو طلحہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْهُمْ، وَلَكِنْ لاَ يُجِيبُونَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1370)۔تم ان سے زیادہ نہیں سنتے لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے۔
عائشہ صدیقہ سے جب یہ روایت بیان کی گی تو اُنہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کہا بلکہ آپ نے یہ فر ما یا: إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ الآنَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ (صحیح البخاری، حدیث نمبر1371)۔اس وقت وہ جان گئے ہیں کہ میں اُن سے جو کچھ کہتا تھا وہ سچ تھا۔
عائشہ صدیقہ نے جو بات کہی وہ گہرے دینی فہم کی بنا پر تھی۔ یہ استثنائی قسم کا گہرا دینی فہم عائشہ کو کہاں سے ملا۔ اس کا جواب یقینی طور پر صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ دینیفہم اُنہیں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبی استفادہ کے ذریعہ حاصل ہوا۔
4۔ کچھ لوگوں نے عائشہ صدیقہ سے آ کر بیان کیا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بد شگونی تین چیزوں میں ہے،عورتمیں،گھوڑے میں اورگھر میں۔ عائشہ نے کہا کہ یہ صحیح نہیں۔ ابو ہریرہ نے آدھی بات سُنی اور آدھی نہیں سُنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے در اصل یہ فرمایا تھا کہ یہود کہتے ہیں کہ بد شگونی تین چیزوں میں ہے عورتمیں، گھوڑے میں اور گھرمیں(مسند ابی داؤد الطیالسی، حدیث نمبر 1641؛ مسند احمد، حدیث نمبر 25168)۔
عائشہ کی مذکورہ وضاحت بے حد اہم ہے۔ کیوں کہ اگر اُنہوں نے یہ وضاحت نہ کی ہوتی تو ابوہریرہ کی روایت کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لیے اس معاملہ میں ایک ابہام باقی رہتا جس کو کوئی دوسرا شخص کھول نہیں سکتا تھا۔
5۔ عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے دو بار اللہ کو دیکھا۔ ایک بار معراج کے موقع پر اور دوسری باراُسموقع پر جس کا ذکر سورہ النجممیں آیا ہے۔ مسروق تابعی نے اس کے حوالہ سے عائشہ صدیقہ سے پوچھا کہ اے ام المومنین، کیا رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا تھا۔ عائشہ صدیقہ نے کہا کہ تم ایسی بات بولے جس کو سن کر میرے بدن کے رو نگٹےکھڑے ہو گئے۔ جو تم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھا وہ جھوٹ کہتا ہے:مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ۔ پھر یہ آیت پڑھی:لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (6:103)۔ یعنی، نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ لطیف ہے،خبر رکھنے والا ہے۔ اس کے بعد عائشہ نے یہ دوسری آیت پڑھی:وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ(42:51)۔کسی انسان کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اللہ اُس سے باتیں کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردہ کے پیچھے سے(صحیحالبخاری،حدیث نمبر 4855 )۔
عائشہ صدیقہ نے اس معاملہ میں جو وضاحت کی اس کے لیے غیر معمولی دینیجرأتدرکار تھی۔ یہ دینی جرات کسی ایسے ہی شخص میں ہوسکتی ہے جس نے لمبی مدت تک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی ہو اوراس طرح کے امور میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے تبادلۂ خیال کر کے دین میں گہری بصیرت حاصل کی ہو۔
6۔ ابوسعید خدری کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے نئے کپڑے منگوا کر پہنے۔ اس کا سبب انہوں نے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان جس لباس میں مرتا ہے، اسی میں وہ اٹھایا جاتا ہے۔ عائشہ صدیقہ کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا تو کہا کہ خدا ابو سعید پر رحم کرے۔ لباس سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود انسان کے اعمال ہیں ۔ ورنہ آپ کا تو یہ صاف ارشاد ہے کہ لوگ قیامت میں ننگے بدن، ننگے پیر اور ننگے سر اٹھیں گے(عین الاصابہ للسیوطی، صفحہ 49) ۔
عائشہ صد یقہ کی اس وضاحت سے ایک حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ حدیث کو سمجھنے کے لیے بعض اوقات ضروری ہوتا ہے کہ ایک قول کو اس کے لفظی معنی میں نہ لیا جائے بلکہ اس کو علامتی معنی میں لیا جائے۔
7۔ ایک مرتبہ آپ نے حكم دیا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ رکھا جائے ۔ ظاہری الفاظ کی بنا پر کچھ صحابہ اس حکم کو دائمی سمجھتے تھے۔ عائشہ صدیقہ نے اس ارشاد کی حکمت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ایک وقتي حکم تھا۔ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ کیا تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا ہے۔ عائشہ نے کہا کہ: لَا، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ يُضَحِّي مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ، فَفَعَلَ ذَلِكَ لِيُطْعِمَ مَنْ ضَحَّى مَنْ لَمْ يُضَحِّ (مسند احمد، حدیث نمبر24707)۔نہیں، اس زمانہ میں چند لوگ قربانی کر سکتے تھے ۔ اس لیے آپ نے حکم دیا تا کہ جوقربانی کریں وہ ان کو کھلائیں جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے۔
عائشہ صد یقہ کی اس تصحیح سے مزید یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قربانی کے گوشت کو جدید طریقوں کے مطابق، لمبی مدت تک محفوظ رکھنا جائز ہے۔ موجودہ زمانہ کی نسبت سے یہ وضاحت بے حد اہم ہے۔ اگر عائشہ صدیقہ کی یہ وضاحت موجود نہ ہوتی تو مذکورہ حدیث کی حکمت معلوم کرنا ممکن نہ ہوتا اور قربانی کے گوشت کو محفوظ کر کے اس کو دیر تک استعمال کرنا لوگوں کو اسلام کی تعلیم کے خلاف معلوم ہوتا۔
8۔ عائشہ صدیقہ کے پاس قبیلہ بنو عامر کے دو آدمی آئے۔ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدشگونی تین چیزوں میں ہے، گھر میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ۔ عائشہ صد یقہ اس پر بہت زیا دہ غصہ ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد پر قرآن کو اتارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز ایسا نہیں کہا۔ آپ نے جو کہا وہ یہ تھا کہ جاہلیت کے لوگ ان تینوں چیزوں سے بدشگونی لیتے تھے(مسند احمد، حدیث نمبر 26034)۔
غالباً راوی نے اپنی سادگی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو پوری طرح نہیں سمجھا۔ آپ نے جو بات جاہلیت کے لوگوں کے بارے میں کہی تھی اُس کو انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا۔ مگر عائشہ صدیقہ اپنی غیر معمولی ذہانت اور مسلسل محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر دین کے مزاج کو پوری طرح سمجھ چکی تھیں ۔ اسی لیے انہیں اصل بات کو سمجھنے میں دیر نہیں تھی ۔ انہوں نے راوی کی بات کو سن کر فوراً اپنے فہم و دین کی بنا پر اس حقیقت کو چھو لیا اورفورا ًاس کی تردید کر کے اصل بات کو بیان کیا۔
ان چند مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عائشہ صدیقہ کا کنٹری بیوشن اسلام میں کتنا زیادہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنے کے لیے عائشہ کی روایات کا مطالعہ بے حد اہم ہے۔ عائشہ کے ذریعہ بعد کے لوگوں کو جو چیز یں ملیں ان کاغالباً سب سے زیادہ اہم حصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور اپنی پوری زندگی اسلام کے لیے وقف کر دینے کے نتیجہ میں گہری دینی بصیرت حاصل کی۔ حتی کہ اس دینی بصیرت میں غالباً کوئی اور ان کا ثانی نہیں ۔ پھر اس دینی بصیرت کے تحت انہوں نے تقریباً نصف صدی تک امت کو براہ راست رہنمائی دی ۔ اور جہاں تک بالواسطہ رہنمائی کا تعلق ہے وہ آج تک جاری ہے اور بلاشبہ قیامت تک جاری رہے گی۔
اصل یہ ہے کہ دین کی دو سطحیں ہیں ۔ ایک ظاہر دین، اور دوسرا حقیقتِ دین ۔ وہ عورت یا مرد جو ظاہری سطح پر دین کو پائیں انہوں نے گویا ایک پھل کو ایک چھلکے کی سطح پر پایا اور جو عورت یا مردد ین کو اس کی گہری معنویت کی سطح پر پائیں انہوں نے گویا پھل کے مغز کو پالیا۔ پھل کو پانے والے دراصل یہی دوسری قسم کے لوگ ہیں ۔
عائشہ صدیقہ نے خدا کے دین کو اس کی حقیقت اور معنویت کی سطح پر پایا ۔ اس طرح انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو ایک اعلیٰ ربانی شخصیت بنایا بلکہ اپنی زندگی سے انہوں نے اس کی ایک اعلیٰ تاریخی مثال بھی قائم کر دی کہ کوئی عورت یا مرد دین میں معرفت کے اس اعلی درجہ کوکس طرح حاصل کر سکتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی عمر میں آپ کا نکاح حضرت خدیجہ سے ہوا جو عمر میں آپ سے پندرہ سال بڑی تھیں ۔ اور آپ کی عمر کے آخری حصہ میں آپ کا نکاح عائشہ سے ہوا جوعمر میں آپ سے بہت کم تھیں ۔یہ دونوں ہی بے حد اہم تھیں ۔ کیوں کہ پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی میں آپ کو ایک تجربہ کار خاتون کی ضرورت تھی، جب کہ آپ کی آخر عمر میں عائشہ جیسی ایک کم عمر خاتون درکار تھیں، جیسا کہ اگلے باب سے واضح ہوتا ہے۔