تعلیم و تربیت
عائشہ صدیقہ کے حالات میں بتایا گیا ہے کہ وہ علمی اعتبار سے صحابہ کے درمیان ایک ممتاز حیثیت رکھتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مسلم خواتین میں سب سے بڑی فقیہ تھیں اور دین و ادب میں وہ اُن سب سے زیادہ علم رکھتی تھیں:افقہ نساء المسلمین و اعلمھن بالدین والأدب) الاعلام، للزِرکلی، جلد 3صفحہ240)۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: كَانَتْ عَائِشَةُ، أَفْقَهَ النَّاسِ وَأَعْلَمَ النَّاسِ وَأَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا فِي الْعَامَّةِ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 6748)۔ یعنی، عائشہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ، سب سے زیادہ صاحبعلم اور عوام میں سب سے اچھی رائے والی خاتون تھیں ۔
ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں:مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلاَّ وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3883) ۔ یعنی، اصحابرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی مسئلہ میں کوئی اشکال ہوتا تو ہم عائشہؓ سے اُس کی بابت پوچھتے اور اُن کے پاس ہم اُس کے بارے میں کوئی علم پا لیتے۔
عائشہ صدیقہ کے علم کے بارے میں اس طرح کی باتیں حدیث و سیرت کی کتابوں میں آئی ہیں۔ اُن سے ایک اہم مسئلہ معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ اسلام میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ عائشہ صدیقہ کو یہ علم پیدائشی طور پر نہیں ملا تھا اور نہ مِل سکتا تھا۔ یقینی طور پر اُن کو یہ علم اُسوقت اسلامیمعاشرہ میں حاصل ہوا۔
عائشہ صدیقہ کے والد ابوبکر صدیق قدیم عرب کے اُن ڈیڑھ درجن افراد میں شمار کیے جاتے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ چنانچہ عائشہ صدیقہ کا پہلا تعلیمی ادارہ خود ان کا گھر بنا۔ اپنے والد سے اُنہوں نے حکیمانہ اشعار اور عربخطباء کے کلام کو سنا اور ان کو حفظ کر لیا۔ اسی طرح اُنہوں نے اپنے والد سے علم الأنساب سیکھا جو گو یا عرب تاریخ کا علم حاصل کرنے کے ہم معنیٰ تھا۔ نکاح کے بعد جب وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آئیں تو اُن کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جیسے معلمّ سے علم حاصل کریں۔ چنانچہ یہ سلسلہ ہر دن کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتا تھا۔ اس حلقۂ درس کی مثالیں کثرت سے حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں۔
اس کے علاوہ عائشہ صدیقہ کی رہائش گاہ جو ایک حجرہ پر مشتمل تھی وہ قدیم مسجد نبوی سے بالکل متصل واقع تھی۔ پیغمبر اسلام کی تعلیمی مجلسیں جو ہر روز مسجد میں جاری رہتی تھیں وہ اپنے حجرہ میں رہتے ہوئے ان کو سنا کر تی تھیں۔
دینی علوم کی تعلیم کا کوئی وقت مخصوص نہ تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت شب و روز اُن کو حاصل تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی تعلیم کے حلقے روزانہ مسجد نبوی میں منعقد ہو تے تھے۔ عائشہ صدیقہ کا حجرہ اس سے بالکل قریب تھا۔ اس بنا پر آپ گھر سے باہر بھی لوگوں کو جو درس دیتے تھے، وہ اس میں شریک رہتی تھیں۔ اگر کبھی دوری کی وجہ سے کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حجرہ میں آتے تو وہ اس کو دریافت کر لیتیں۔ کبھی اُٹھ کر مسجد کے قریب چلی جاتیں۔ اس کے علاوہ آپ نے عورتوں کی درخواست پر ہفتہ میں ایک خاص دن ان کی تعلیم و تلقین کے لیے متعین فرما دیا تھا۔
اس طرح کے حوالے جو عائشہ صدیقہ کی نسبت سے حدیث و سیر کی کتابوں میں آئے ہیں، وہ صرف خاتوناوّل کی سیرت کو نہیں بتا تے بلکہ خود اسلامی معاشرہ کی ایک خصوصیت کو بتاتے ہیں۔ اسلامی معاشرہ نہ صرف مردوں کے لیے بلکہ عورتوں کے لیے بھی ایک وسیع تر تعلیم گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاشرہ میں خواتین کی تعلیم کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے۔ ان کو اپنے علمی شوق کی تکمیل کے مواقع دیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک خاتون اپنی محنت کے ذریعہ علم میں مردوں سے بھی آگے بڑھ جائے، جیسا کہ عائشہ صدیقہ کے ساتھ پیش آیا۔
تعلیم و تربیت کے معاملہ میں عائشہ صدیقہ کی حیثیت ایک منفرد یا استثنائیشخصیت کی نہیں ہے بلکہ وہ اس معاملہ میں ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ علم کے میدان میں ان کی سبقتمسلم خواتین کے لیے ایک رہنما مثال ہے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دینی تربیت حاصل کر نے کا موقع جتنا زیادہ عائشہ صدیقہ کو ملا،شاید کسی مرد یا عورت کو نہیں ملا۔ مزید یہ کہ عائشہ صدیقہ ا سوقت اپنی ابتدائی عمر میں تھیں۔ اس لیے وہ اُس ذہنی مسئلہ سے مکمل طور پر محفوظ تھیں جس کو نفسیات کی اصطلاح میں کنڈیشننگ(conditioning)کہا جاتا ہے۔ عمرکے لحاظ سے وہ اس پوزیشن میں تھیں کہ وہ ہر بات کو بے آمیز ذہن سے سنیں اور وہ فوراً اُن کے ذہن کا جزء بن جائے۔ اسی کے ساتھ عائشہ نہایت ذہین اور اخّاذ طبیعت کی مالک تھیں۔ اس لیے وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو اُس کی پوری گہرائی کے ساتھ سمجھ لیتیں۔ پیغمبر اگرچہ ہمیشہ جوامع الکلِم کی زبان میں گفتگو فر ما تے تھے، مگر وہ اپنی غیر معمولی قوت ااستنباط کی بنا پر اُس کو اُس کے تمام تفصیلی پہلوؤں کے ساتھ سمجھ لیتی تھیں اور اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ رکھتی تھیں۔
عائشہ صدیقہ کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کا جو خصوصی موقع ملا اُسی کانتیجہ تھا کہ وہ دین کی فہم وبصیرت میں اتنی ممتاز بن گئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بڑے بڑے صحابہ اُن سے رجوع کر تے اور اُن کے ذریعہ حکمتِ نبوت کی تعلیم حاصل کرتے۔