28۔ زندگی ایک امانت ہے
قرآن کے مطابق، زندگی ایک امانت ہے، مرد کے لیے بھی اور عورت کے لیے بھی۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک کا یہی امتحان ہے کہ وہ اس امانت الٰہی میں پورا اُترے۔ اسی پر ہر مرد اور ہر عورت کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کا بیان یہ ہے:
ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو أنہوں نے اس کو اُٹھانےسے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اُٹھالیا۔ بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔ تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے۔ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں پر توجہ فرمائے۔ اور اللہ بخشنے والا،مہربان ہے (33:72-73)۔
امانت سے مراد اختیار ہے۔ اختیار کو امانت اس لیے فرمایا کہ وہ اللہ کی ایک چیز ہے جس کو اُس نے عارضی مدت کے لیے انسان کو بطور آزمائش دیا ہے تا کہ انسان خود اپنے ارادہ سے خدا کا تابعدار بنے۔ امانت، دوسرے لفظوں میں، اپنے اوپر خدا کا قائم مقام بننا ہے۔ اپنے آپ پر وہ کرنا ہے جو خدا ستاروں اور سیاروں پر کر رہا ہے۔ یعنی اپنے اختیار سے اپنے آپ کو خدا کے کنڑول میں دے دینا۔
اس کائنات میں صرف اللہ حاکم ہے اور تمام چیزیں اس کی محکوم ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی کہ وہ ایک ایسی آزاد مخلوق پیدا کرے جو کسی جبر کے بغیر خود اپنے اختیار سے وہی کرےجوخدا اس سے کر وانا چاہتا ہے۔ یہ اختیاری اطاعت بڑی نازک آزمائش تھی۔ آسمان اور زمین اور پہاڑ بھی اس کا متحمل نہیں کرسکتے۔ تا ہم انسان نے شدید اندیشہ کے باوجود اس کو قبول کر لیا۔ اب انسان موجودہ دنیا میں خدا کی ایک امانت کا امین ہے۔ اس کو اپنے اوپر و ہی کرنا ہے جو خدا دوسری چیزوں پر کر رہا ہے۔ انسان کو اپنے آپ پر خدا کا حکم چلانا ہے۔ انسانحالتِ امتحان میں ہے اور موجودہ دنیا اس کے لیے وسیع امتحانگاہ۔
یہ امانت ایک بے حد نازک ذمہ داری ہے۔ کیوں کہ اسی کی وجہ سے جزا و سزا کا مسئلہ پیدا ہوتاہے۔ دوسری مخلوقات مجبور و مقہور ہیں۔ اس لیے اُن کے واسطے جزا و سزا کا مسئلہ نہیں۔ انسان آزاد ہے۔ اس لیے وہ جزا و سزا کا مستحق بنتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی تخلیق کے آغاز کے وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً(2:30)۔یعنی،میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں۔اس آیت کی تشریح کچھ لوگوں نے یہ کی ہے کہ:خَلِيفَة يَخْلُفنِي فِي تَنْفِيذ أَحْكَامِي فِيهَا (تفسیر الجلالین، جلد1، صفحہ8)۔یعنی، ایک ایسا خلیفہ جو زمین میں میرے احکام نافذ کرے گا۔مگر مذکورہ آیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس کی زیادہ صحیح تفسیریہ نظر آتی ہے کہ: خلیفۃ يخلفني فی تنفیذ احکامی علی نفسہ۔ یعنی وہ خدا کے احکام کو خدا کی طرف سے اپنے آپ پر نافذ کرے گا۔ گو یا تنفیذِاحکام کا عمل خود انسان کی اپنی ذات ہے، نہ کہ خارجی معنوں میں زمین۔
اس خدائی منصوبہ کا تعلق عورت اور مرد دونوں سے ہے۔ اس کے نتیجہ میں عملاًمردوں اور عورتوں کی تین تقسیم واقع ہو گی۔ ایک وہ لوگ جو جانچ میں سچے مومن ٹھہریں۔ دوسرے وہ لوگ جو اس جانچ میں کھُلےطور پر ناکام ہو جائیں۔ تیسرا گروہ منافقین کا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو زبان سے ایمان کا اقرار کریں مگر وہ اپنی عملی زندگی کو خدائی حکم کے بجائے دنیوی مفادات کے تابع بنائے رہیں۔