تقسیم کار کا اصول
اسی طرح قرآن کے مطابق، خاندانی تنظیم کا ایک اصول یہ ہے کہ عورت بنیادی طور پر گھر کے داخلی نظام کو سنبھالے اور مرد بنیادی طور پر معاش کی فراہمی کا ذمہ دار ہو۔ یہ بات قرآن میں اس طرح بتا ئیگئیہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ (4:34)۔ یعنی، مرد عور توں کے او پر قوّام ہیں،اس بنا پر کہ اللہ نے ایک کودوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد نے اپنے مال خرچ کیے۔
اس آیت میں فضیلتکالفظامتیاز کے معنیٰ میں نہیں ہے، بلکہ وہ مزید استعداد (additional quality) کے معنیٰ میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تخلیقی نقشہ کے مطابق مرد کو جسمانی اعتبار سے زیادہ مضبوط(strong)بنا یا گیا ہے۔ وہ سختیوں کو سہنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ مرد کے اندر یہ اضافی صلاحیت اس لیے رکھی گئی ہےتا کہ وہ معاشی جد و جہد کی مشکلات کو برداشتکرے۔وہ سرد و گرم حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے لیے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے رزق حاصل کرے۔
تخلیقی نقشہ کے مطابق،عورت کا کام بنیادی طور پر گھر کے داخلی نظام کو سنبھالنا ہے، اسے اگلی نسل کے افراد کو تیار کرنا ہے۔ اس بنا پر عورت کے اندر اس خاص پہلو سے کچھ اضافی خصوصیت(additional quality)رکھی گئی ہے۔مثلاًنرمی اور انفعالیت وغیرہ۔ اگر عورت اور مرد دونوں اس تخلیقی راز کو سمجھیں اور دونوں اپنے اپنے دائرہ میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں تو گھر کے اندر کا نظام اور گھرکے باہر کا نظام دونوں یکساں طور پر کامیابی کے ساتھ چلے گا۔ اور اگر اس تخلیقینقشہ کی رعایت نہ کی جائے تو خاندانی زندگی کے معاملات درہم برہم ہو کر رہ جائیں گے۔
موجودہ زمانہ کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہی ہے۔ موجودہ زمانہ میں مساوات کے غیر فطری نظریہ کے تحت یہ ہوا کہ عورت اور مرد دونوں باہر کے کام کو سنبھالنے کے لیے دوڑ پڑے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باہر کی دنیا میں مصنوعی طور پر بے روزگاری (unemployment)کا مسئلہ پیدا ہوا۔ مر دوں کے لیے روزگار کے مواقع پوری طرح موجود تھے۔ مگر جب عورتیں بھی اپنے گھروں سے نکل کر روزگار کےمواقع میں حصہ دار بن گئیں تو یہ تناسب قدرتی طور پر ٹوٹ گیا اور وہ مسئلہ پیدا ہو گیا جس کو بے روزگاری کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف یہ ہوا کہ عورتیں اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں۔ انہوں نے اپنی ان ذمہ داریوں کو چھوڑ دیا جو انہیں فطری نظام کے تحت اپنے گھروں کے اندر انجام دینا تھا۔
فطرت کے نظام کو توڑنے کا نتیجہ نہایت بری شکل میں نکلا۔ سماج کے اندر نئے نئے سنگین مسئلے پیدا ہو گئے۔ عورتوں کے باہر آنے سے کوئی نیا تعمیری کام نہ ہو سکا۔ کیوں کہ گھر سے باہر آ کر جو کام انہوں نے سنبھالا اس کو کرنے کے لیے معقول تعداد میں لوگ موجود تھے مگر جہاں تک گھر کا تعلق ہے وہ صرف عورتوں کو کرنا تھا، اس لیے وہ اجڑ کر رہ گیا۔
موجودہ زمانہ میں انسانی سماج بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ یہ مسائل براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اس تلخ حقیقت سے جڑے ہوئے ہیں کہ سماجی زندگی کے ایک شعبہ میں ضرورت سے زیادہ کام ہو رہا ہے اور سماجی زندگی کے دوسرے شعبہ میں سرے سے کام ہونا ہی بند ہو گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس معاملہ میں از سر نو غور کیا جائے اور ریاسسمنٹ (reassessment)کے ذریعہ پھر سے سمجھا جائے کہ زندگی کی تشکیلکا صحیح فطری نظام کیا ہے۔