عورت ایک انٹیلکچول پارٹنر
ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کر کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلق قائم کرتے ہیں تو یہ تعلق صرف شوہر اور بیوی کا تعلق نہیں ہوتا بلکہ تعلق اُتنا ہی وسیع ہے جتنا کہ خود زندگی وسیع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خالق نے عورت اور مرد کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ پورے معنیٰ میں ایک دوسرے کے شریک حیات اور شریکِ معاملہ بنیں ۔ وہ ایک دوسرے کے کامل مددگار بن جائیں ۔قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ: مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ (3:195)۔ یعنی خواہ مرد ہو یا عورت، دونوں ایک دوسرے کا جزء ہیں ۔ دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر(9:71)۔یعنی ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں ۔ وہ اچھی بات کا حکم کرتے ہیں اور وہ بری بات سے منع کرتے ہیں ۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ عورت اور مرد کے اندر خالق نے جو سب سے بڑی صفت رکھی ہے وہ نطق (speech)ہے۔ انسان کی انسانیت کا سب سے بڑا اظہار نطق کی سطح پر ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت اور مرد جب زندگی میں ایک دوسرے کے مددگار اور شریک معاملہ ہیں تو اس تعلق کا اظہار یقینی طور پر سب سے زیاد نطق کی سطح پر ہونا چاہیے۔ اگر ایک عورت اور ایک مرد نکاح کر کے ایک دوسرے کے شریکِ زندگی بنیں لیکن نطق کی سطح پر ان کے درمیان کوئی گہرا تعلق قائم نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ صرف نچلی سطح پر شریک حیات بنے ہیں، وہ اعلی سطح پر ایک دوسرے کے شریک زندگی نہ بن سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ شادی شدہ زندگی کا اعلیٰ معیار یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں نطق کی سطح پر ایک دوسرے کے شریک بن جائیں۔ ان کے درمیان باہم گفتگو ہو۔ وہ مسائل میں ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کر یں ۔ وہ ایک دوسرے کی صرف تعریف نہ کریں بلکہ وہ ایک دوسرے کے خیالات پر ناقدانہ اظہار رائے کریں تا کہ دونوں کی فکری سطح بلند ہو، معاملات کے نئے گوشے سامنے آئیں۔ دونوں مل کر فکری ارتقاء کے سفر کے مسافر بن جائیں۔
قرآن کی مذکورہ آیتوں میں عورت اور مرد کے باہمی تعلق کا جو ذکر کیا گیا ہے اس کا کم از کم ایک پہلو یہ بھی ہے۔ یہ بلا شبہ دونوں کے باہمی تعلق کا ایک فطری تقاضا ہے۔ بے زبان عورت اور بے زبان مرد کے درمیان اگر رشتۂ نکاح قائم ہوتو ممکن نہیں کہ نطق کی سطح پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ سکیں ۔ لیکن ناطق عورت اور ناطق مرد کاتعلق بلاشبہ زندہ نطق کا تعلق ہے اور نطق کایہ تعلق یقینی طور پر محدود نہیں ہوسکتا۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹیلکچول پارٹنر(intellectual partner)کی حیثیت رکھتے ہیں۔
او پر جو بات بیان کی گئی، اس کا یہ لا زمی تقاضا ہے کہ شادی سے پہلے یا شادی کے بعد عورت اور مرد دونوں اس پہلو سے اپنے آپ کو تیار کریں ۔ مطالعہ اور اکتساب ِعلم کے ذرائع کو استعمال کر کے دونوں اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ وہ حقیقی طور پر ایک دوسرے کے لیے انٹیلکچول پارٹر(فکری رفیق)بن سکیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹیلکچول پارٹنر شپ ایک آرٹ ہے، اور یہ کہناصحیح ہوگا کہ خواتین کے لیے ڈومسٹک سائنس یا پروفیشنل ایجوکیشن سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ وہ انٹیلکچول پارٹنر شپ کے آرٹ کو سیکھیں اور اس کی ماہر بنیں۔ اسلام نے زندگی کا جو تصور دیا ہے اُس کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو بلاشبہ یہ بھی ہے۔ اور زندگی کو پوری طرح خوشگوار بنانے کے لیے یہ بے حد اہم ہے۔