منفی سوچ سے بچنا
ابو ہریرہ کی ایک روایت ہے۔ اس میں وہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بہن(سوکن)کےطلاق کے لیے اپنے شوہر سے مطالبہ کرے تا کہ وہ اُس کے پیالہ کو خالی کر لے( اور اپناپیالہبھرے)۔ کیوں کہ اُس کے لیے وہ ہے جو اُس کے لیے مقدر کیا گیا ہے:لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تَسْأَلُ طَلاَقَ أُخْتِهَا، لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا، فَإِنَّمَا لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5152)۔
ابن عبد البر نے اس حدیث میں اخت(بہن)سےمرادسوکن لیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی عورت کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے شوہر سے اپنی سوکن کے طلاق کا مطالبہ کرے تا کہ وہ اکیلی ہی اپنے شوہر کی بیوی بن جائے (فتح الباری لابن حجر،جلد9،صفحہ 127)۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عورت کے ساتھ اگر مذکورہ قسم کا معاملہ پیش آئے، یعنی وہ ایک شوہر کی دوسری بیوی ہو تو ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کومنفی نفسیات سے مکمل طور پر بچائے۔ وہ صورت حال کو پوری خوش دلی کے ساتھ قبول کرے۔ کیوں کہ دونوں کو وہی ملے گا جو ان کے لیےمقدر کر دیا گیا ہے۔ دونوں میں سے کوئی نہ کسی کے حصہ میں سے کچھ لے سکتا ہے اور نہ کسی کے حصہ میں کچھ کمی کر سکتا ہے۔ اس کی منفیتدبیروں کے بعد بھی وہی ہو گا جو ہونے والا تھا، نہ کہ وہ جس کو اس نے اپنے منفی جذبات کے تحت اپنے یا دوسرے کے لیے چاہا تھا۔
ایسی حالت میں مذکورہ قسم کی عورت کے لیے جو صحیح روش ہے وہ قناعت اور خدا پر بھروسہ ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ پیش آمدہ صورت حال کو خدا کا فیصلہ سمجھ کر اس کو قبول کرے، نہ کہ بے فائدہ طور پر اس کو بدلنے کی کوشش کرے۔