15۔ آ دم اور حوا
قرآن میں ابتدائی انسان(آدم اور حوا) کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے— اور اے آدم،اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ جہاں سے چاہو۔ مگر اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ تم نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ پھر شیطان نے دونوں کو بہکایا تاکہ وہ کھول دے دونوں کی وہ شرم کی جگہیں جو ان سے چھپائی گئی تھیں۔ اُس نے دونوں سے کہا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم دونوں فرشتہ نہ بن جاؤ یا تم دونوں کو ہمیشہ کی زندگی حاصل ہو جائے۔ اور اُس نے قسم کھا کر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔ پس مائلکر لیا اُندونوں کو فریب سے۔ پھر جب دونوں نے درخت کا پھل چکھا تو دونوں کی شرمگاہیں اُن پر کھُل گئیں اور دونوں اپنے کو باغ کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔ اور ان کے رب نے اُن کو پکارا کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کاکھُلاہوا دشمن ہے۔ اُن دونوں نے کہا، اے ہمارے رب، ہم دونوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم دونوں کو معاف نہ کرے اور ہم دونوں پر رحم نہ کرے تو ہم دونوں گھاٹااُٹھا نے والوں میں سے ہو جائیں گے(7:19-23)۔
قرآن کے اس بیان میں بار بار تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ اُس کا ایک خاص سبب ہے۔ اصل یہ ہے کہ بائبل میں یہ کہا گیا ہے کہ جنت میں جب آدم اور حوا کو بسایاگیاتوحوّا نے آدم کو بہکا یا اور حوّا کے کہنے سے آدم نے ممنوعہ درخت کے معاملہ میں خدا کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ قرآن کے مذکورہ بیان میں تثنیہ کے صیغے اسی کی تردید کے لیے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ بہکا نے والا در اصل شیطان تھا، نہ کہ حوّا۔ شیطان نے بیک وقت دونوں کو بہکایا اور دونوں ہی مشترک طور پر اُس کے بہکاوے میں آ گئے۔ قرآن کے اس بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں کا معاملہ بالکل یکساں ہے۔ دونوں ہی نے مشترک طور پر غلطی کی اور پھر دونوں ہی نے مشترک طور پر توبہ کر کے دوبارہ اللہ کی رحمت حاصل کی۔