و الدین فطری معلم
ماں اور باپ اپنی اولاد کے فطری معلم ہیں۔ قرآن و حدیث میں ماں اور باپ کی اطاعت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اپنےوالدینکواُف نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکو اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور ان کے سامنے نرمی سے عجز کےبازو جھکادو (23:17-24)۔ اسی طرح حدیث میں والدین کے عزت و احترام کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ ماں اور باپ اپنی اولاد کے سب سے بڑے خیرخواہ ہوتے ہیں۔ ان سے بہتر ناصح اور کوئی نہیں۔ اسی لیے اسلام کا یہ منشا ہے کہ اولاد کے اندر اپنے باپ اور ماںکے لیےانتہائیعزت و احترام کا ماحول پیدا کیا جائے تا کہ ماں باپ کی طرف سے آنے والی ہر نصیحت کو وہ دل کی گہرائی کے ساتھ قبول کر سکیں۔
ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے بچپن کی عمر میں ایک نا تجربہ کار شخص ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اس کے ماں باپ کی حیثیتتجربہکارسرپرست کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں اور باپ ہر پیدا ہونے والے عورت اور مرد کے سب سے بہتر معلم اور مربی ہو تے ہیں۔ اپنے بچوں کے حق میں ماں باپ کی محبت اس تعلق کو مزید اہم بنا دیتی ہے۔
از دو اجی زندگی کے مسائل کا قریبی فطری حل یہ ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین کو اپنا ازدواجی مشیر بنا لیں۔ کیوں کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی جس ازدواجی زندگی کو شروع کرنے جا رہے ہیں اُس ازدواجی زندگی کا تجربہ اُن کے والدین پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس معاملہ میں والدین اُن کے لیے ایسےصحیحمشیر کی حیثیت رکھتے ہیں جو اُن کے سچے خیر خواہ بھی ہیں، اور اسی کے ساتھ وہ اُس زندگی کا عملی تجربہ بھی کر چکے ہیں جس کی بابتاُنہیںمشورہ کا کام انجام دینا ہے۔ تاہم والدین اپنی اس ذمہ داری کو صرف اس وقت ادا کر سکتے ہیں جب کہ ان کا مشورہ صرف محبت اولاد کے جذبہ کے تحت نہ ہو بلکہ وہ تجربات کی روشنی میں حقیقت پسندانہ مزاج کے تحت ہو۔ کامیاب زندگی کا سب سے بڑا راز حقیقت پسندی ہے۔