نقشۂ امتحان
عمر بن عبدالعزیز ایک اموی خلیفہ تھے۔ ان کی پیدائش61ھ میں مدینہ میں ہوئی اور وفات حمصمیں101ھ میں ہوئی۔ وہ سلیمان بن عبد الملک کی ایک وصیت کے تحت خلیفہ مقرر ہوئے۔ ان کی متقیانہ زندگی اور ان کے عدل و انصاف کی بنا پر ان کو اسلام کی تاریخ میں پانچواںخلیفۂراشد کہاجا تا ہے۔
عمر بن عبدالعزیز بنو امیہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ خلافت سے پہلے ان کی زندگی ایک امیرانہزندگی تھی۔ مگر خلیفہ بننے کے بعد انہوں نے آرام و راحت کی زندگی کو چھوڑ دیا اور نہایت سادہ زندگی اختیار کر لی۔ ان کی بیوی فاطمہ بنت عبد الملک خود بھی شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے پاس کافی زیور تھے جو شادی کے وقت ان کو اپنے میکہ کی طرف سے ملے تھے۔
عمر بن عبدالعزیز نے خلیفہ ہونے کے بعد اپنی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے کہا کہ تم اپنے تمام زیورات کو بیتالمال میں داخل کر دو ورنہ میں تم سے جدائی اختیار کر لوں گا۔ کیوں کہ مجھ کو یہ کس طرح گوارا نہیں کہ تم اور تمہارے زیورات اور میں تینوں ایک گھر میں رہیں۔ ان کی بیوی اس پر بخوشی راضی ہو گئیں اور اپنے تمام زیورات جن میں وہ قیمتی موتی بھی تھا جو عبد الملک نے اپنی بیٹی کو دیا تھا سب بیتالمال میں بھجوا دیا تا کہ وہ عوام کے مفاد کے لیے استعمال ہوں۔
فاطمہ بنت عبد الملک کا یہ واقعہ کوئی سادہ واقعہ نہیں۔ یہ بلاشبہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ یہاں یہ سوال ہے کہ وہ کیا چیز تھی جس نے فاطمہ بنت عبد الملک کو اس پر راضی کیا کہ وہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے مذکورہ غیر معمولی فیصلہ کو اتنی آسانی کے ساتھ قبول کر لیں۔ یہ سبب وہ مخصوص تصور حیات تھا جو اسلام ہر عورت اور مرد کو عطا کرتا ہے۔
اسلام کے تصور کے مطابق، موجودہ دنیا کی زندگی ایک عارضی زندگی ہے۔ یہ عارضی زندگی انسان کو امتحان کے لیے دی گئی ہے۔ انسان کی اصل زندگی موت کے بعد دوسری دنیا میں شروع ہو تی ہے۔ موجودہ دنیا عمل کر نے کی جگہ ہے اور موت کے بعد کی دنیا عمل کا انجام پانے کی جگہ۔
موجودہ دنیا کی حیثیت سفر کی ہے اور اگلی دنیا کی حیثیت منزل کی۔ زندگی کا یہ تصور بے حد اہم ہے۔ وہ موجودہ دنیا کے معاملہ کو ثانوی چیز بنا دیتا ہے اور اگلی دنیا کے معاملہ کو اولین چیز۔ اس تصور کے تحت آدمی کا یہ ذہن بنتا ہے کہ موجودہ دنیا کا نقصان عارضی نقصان ہے۔ اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ آدمی اگلی دنیا کے نقصان سے بچ جائے۔ یہ تصور کسی عورت یا مرد کو اس قابل بنا تا ہے کہ وہ آخرت کے انعام کی امید میں موجودہ دنیا کے کھونے کو بر داشت کر لے۔
اس تصور کا تعلق جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات سے ہے اسی طرح اس کا تعلق عورت اور مرد کی شادی شدہ زندگی سے بھی ہے۔ شادی شدہ زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک کو دوسرے کی طرف سے کوئی نا خوشگوار تجربہ پیش آتا ہے۔ ایک کو دوسرے کی طرف سے کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے۔ ایک کی امید میں دوسرے کے ساتھ پوری نہیں ہوتیں۔ ایسی حالت میں جو لوگ صرف موجودہ دنیوی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہوں وہ نا خوش گوار تجربہ پیش آنے کے بعد بر ہم ہو جائیں گے، اس کے بعد وہ معتدل تعلقات کے قابل نہ رہیں گے۔ ان کی زندگی یا تو آ ہوں اور آنسوؤں میں گزرے گی یا وہ تعلقات کو توڑ کر تنہائی کی زندگی اختیار کر لیں گے۔ اور دونوں ہی صورتیں یکساں طور پر انسان کے لیے تباہ کن ہیں،عورت کے لیے بھی اور مرد کے لیے بھی۔
اسلام کے تصور حیات کے مطابق، موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ وہ ہر ایک کے لیے امتحان ہے خواہ وہ بظاہر اچھی حالت میں ہو یا بری حالت میں۔ اس دنیا میں خوشی کی حالت بھی ایک امتحان ہے اور غم کی حالت بھی ایک امتحان۔ یہاں آرام بھی امتحان ہے اور تکلیف بھی امتحان۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں زندگی کا ہر نقشہ امتحان کا نقشہ ہے۔ جس عورت یا مرد کو جو زندگی ملی ہے وہ اس کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ یہاں ہر ایک یکساں طور پر اپنا اپنا امتحان دے رہا ہے۔ گویا کہ موجودہ دنیا ایک بڑا امتحان ہال ہے۔ یہاں کسی عورت یا مرد کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ بظاہر اس دنیا میں زندگی کے بہت سے نقشے دکھائی دیتے ہیں مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہرنقشہایکنقشۂامتحان ہے۔ ہر ایک کو کسی نقشۂ امتحان میں رکھ کر اس کو جانچاجا رہا ہے۔
عورت یا مرد، خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، ہر صورت میں ان کو طرح طرح کے احوال پیش آتے ہیں۔ ان احوال کے دوران ان کے اندر بار بار مختلف قسم کے منفی جذبات ابھرتے ہیں۔ کبھی ان کو کسی سے شکایت ہو جاتی ہے، کبھیان کو کسی کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑتا ہے،کبھیکسی کی بات پر ان کو غصہ آ جاتا ہے،کبھیکسی کے خلاف حسد کے جذبات ابھر جا تے ہیں۔کبھی وہ چاہتے ہیں کہ وہ انتقام لیں،وہ غیر منصفانہ طور پر اپنا قبضہ قائم کرنے کے لیے منصوبہ بناتے ہیں،وہ کسی کا حق مارنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔
اس طرح کے حالات میں عورت اور مرد دونوں اپنی جائز حد سے باہر ہو جاتے ہیں۔ وہ جذبات سے مغلوب ہو کر سب کچھ کر ڈالنا چاہتے ہیں۔ جب وہ کوئی چیز کھو تے ہیں تو اس کاکھونا ان کے لیے ناقابل برداشت بن جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اسلام کا تصور حیات کسی عورت یا مرد کا سب سے بڑا مددگار ہے۔ اس تصور حیات کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ دنیا کے مادی فائدہ اور نقصان کوثانوی چیز بنا دیتا ہے اور آخرت کے فائدہ اور نقصان کو اولین اہمیت کی چیز۔ اس طرح اسلام کا عقیدہ عورت یا مرد کو اس قابل بنا تا ہے کہ وہ ہر نقصان کو گوارا کر کے اپنے آپ کو اعتدال کی حالت پر قائم رکھے۔ وہ ہرصدمہ کو وقتی چیز سمجھ کر اس کو نظر انداز کر دے۔
اسلام کا تصور حیات کسی عورت یا مرد کا یہ مزاج بنا تا ہے کہ وہ نقصان کے بعد بھی عظیم فائدے کی امید رکھے۔ وہ دنیوی معاملہ سے محرومی کے باوجود یہ یقین رکھے کہ زیادہ بڑی چیز اب بھی آخرت کے انعام کی صورت میں اس کے پاس محفوظ ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے اس کو مل کر رہے گی۔
حقيقت يه هے كه كامياب ازدواجي زندگي بھي ايك نقشهٔ امتحان هے اور بظاهر ناكام ازدواجی زندگی بھی ایک نقشۂامتحان۔ زند گی کے دونوں ہی نقشہ میں اصل قابل لحاظ بات یہ ہے کہ عورت اور مرد منفی رد عمل سے اپنے آپ کو بچائیں اور اپنے آپ کو مثبت رد عمل پر قائم رکھیں۔ وہ ہر نا خوش گواربات کو وقتی سمجھ کر اسے نظر انداز کر دیں۔ وہ ہر حال میں اپنی توجہ اگلی دنیا کی کا میا بی پر لگائے رہیں۔ یہی کامیاب از دو اجی زند گی کا اُحصول ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرا اُصول موجودہ دنیا میں قابل عمل نہیں۔
قرآن کی سورہ الفجر میں ارشاد ہوا ہے:پس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کو آزماتا ہے اور وہ اس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو عزت دی۔ اور جب وہ اس کو آزماتا ہے اور وہ اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ کو ذلیل کر دیا (89:15-16)۔
قرآن کی اس آیت میں خدا کی تخلیقاسکیم کو بتا یا گیا ہے۔ اس اسکیم کے مطابق، انسان کی تخلیق کا اصل مقصد ابتلا(آزمائش) ہے۔ یہاں اگر کسی مرد یا عورت کو مادی نعمت زیادہ ملتی ہے تو وہ اس کے لیے آزمائش کا ایک پر چہ ہو تا ہے۔ اسی طرح اگر کسی عورت یا مرد کو مادی ساز و سامان کم دیا جاتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے امتحان کا ایک پر چہ ہوتا ہے۔ لیکن نادان لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ مادیفراوانی ہو تو وہ احساس برتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور اگر مادی تنگیہو تو وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔مگر یہ دونوں قسم کے ردّ عمل خدا کی اسکیم کے خلاف ہیں۔
سچے لوگ وہ ہیں جو دونوں حالتوں میں یکساں طور پر مطمئن رہیں۔ مادی فرا و انی ان کو تواضع کے رویہ سے نہ ہٹائے اور ما دی تنگیان کو شکایت اور بد دلی کی کیفیت میں مبتلا نہ کرے۔ دونوں حالتوں میں وہ یکساں طور پر ثبت نفسیات پر قائم رہیں۔ ایسی ہی مطمئن روحیں ہیں جو دنیا میں اعتدال کی روش پر قائم رہیں گی، اور یہی وہ روحیں ہیں جن کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھو لے جائیں گے۔