22۔ سیا سی ٹکراؤ نہیں
قرآن میں ملکۂسبا کا ذکر ہے۔ وہ حضرت سلیمان کی ہم عصر تھی۔ یمن کے ساحلی علاقہ پر اس کی حکومت قائم تھی۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کاہُد ہُد فلسطین کے علاقہ سے اُڑ کر یمن کے علاقہ تک پہنچا۔ پھر واپس آ کر اُس نے ملکۂ سبا اور اُس کی قوم کو خبر دی۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنا ایک خط لے کر ہُد ہُد کے ذریعہ ملکۂسبا کی طرف روانہ کیا۔ اس سلسلہ میں قرآن کا بیان یہ ہے:
(سلیمان نے کہا کہ) میرا یہ خط لے کر جاؤ۔ پھر اس کو ان لوگوں کی طرف ڈال دو۔ پھر اُن سے ہٹ جانا۔ پھر دیکھنا کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ملکۂسبا نے کہا کہ اے دربار والو، میری طرف ایک با وقعت خط ڈالا گیا ہے۔ وہ سلیمان کی طرف سے ہے۔ اور وہ ہے:شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ تم میرے مقابلہ میں سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس آ جاؤ۔ ملکہ نے کہا کہ اے درباریو، میرے معاملہ میں مجھے رائے دو۔ میں کسی معاملہ کا فیصلہ نہیں کرتی جب تک تم لوگ موجود نہ ہو۔ اُنہوں نے کہا، ہم لوگ زور آور ہیں اور سخت لڑائی والے ہیں اور فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ پس آپ دیکھ لیں کہ آپ کیا حکم دیتی ہیں۔ ملکہ نے کہا کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اُس کو خراب کر دیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔ اور یہی یہ لوگ کریں گے(16:28-34)۔
قرآن کی ان آیات میں ایک خاتون کی زبان سے یہ بتایا گیا ہے کہ سیاسی اختلاف کے معاملہ میں صحیح پالیسی کیا ہے۔ جب ایسا ہو کہ یہ اختلاف دو ایسے سیاسی گروہوں کے درمیان ہو جن میں سے ایک نسبتاً کمزور ہو اور دوسرانسبتاًزیادہ طاقت ور ہو تو ایسی حالت میں صحیح پالیسی یہ ہے کہ ٹکراؤ کو اوائڈ(avoid)کیا جائے۔ کیوں کہ اس طرح کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک گروہ کی یک طرفہ تباہی پر ختم ہوتا ہے۔ ایسے ٹکراؤ میں صرف یہ نہیں ہوتا کہ دو لڑنے والی فوجیں ایک دوسرے کو قتل کریں۔ بلکہ اس قتال کے دوران بے گناہ لوگ بھی مارے جا تے ہیں۔ اور عزت والے لوگ بے عزت کیے جاتے ہیں۔
یہ معاملہ اتنا عام ہے کہ مذکورہ آیت کے مطابق، اگر حضرت سلیمان مُلکِ سبا پر حملہ کرتے تو وہ بھی ایسا ہی کرتے۔ چنانچہ یہاں قرآن میں وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ(27:34)۔ یعنی، وہ بھی ایسا ہی کریں گے، کالفظ استعمال ہوا ہے۔ ایسی حالت میں صحیح پالیسی وہی ہے جو ملکۂسبا نے حضرت سلیمان کے مقابلہ میں اختیار کی۔یعنی ٹکراؤ کو اوائڈ کر نا اور مصالحت کے ذریعہ اپنے قومی مفادات کو محفوظ رکھنا۔