خدیجہ بنت خویلد

خدیجہ بنت خویلد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی اہلیہ تھیں ۔ وہ مکہ کے قبیلۂ قریش کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔ اُن کی عمر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پندرہ سال زیادہ تھی ۔ خدیجہ کا پہلا نکاح ابوہالہ بن زرارہ سے ہوا۔ ابو ہالہ مکہ کے ایک کامیاب تاجر تھے۔ وہ نکاح کے جلد ہی بعد مر گئے ۔ اس کے بعد اُن کی تمام دولت خدیجہ کے حصہ میں آئی۔ خدیجہ کا دوسرا نکاح عتیق بن عائذ مخزومی سے ہوا۔ وہ بھی ایک دولت مند تاجر تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد دوسرے شوہر کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اُن کی دولت خدیجہ کے حصہ میں آئی۔ اس طرح خدیجہ عرب کی ایک دولت مند خاتون بن گئیں۔

خدیجہ نہایت با صلاحیت خاتون تھیں ۔ بیوہ ہونے کے بعد انہوں نے خود بھی تجارت شروع کی۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ تجارتی مال اونٹوں پر لاد کر شام کے ملک میں بھیجتیں۔ یہ سامان وہاں فروخت کر دیا جاتا اور پھر وہاں سے دوسرا سامان اونٹوں پر لاد کر آتا جو مکہ کے بازار میں فروخت کیا جاتا۔ یہ تجارت وہ اس طرح کرتی تھیں کہ اپنے غلام میسرہ کے ساتھ ایک اور تجربہ کارشخص کو اونٹوں کے ساتھ بھیج دیتیں۔ واپسی کے بعد اس شخص کو معاوضہ میں ایک اونٹ دے دیتیں۔

اس زمانہ میں محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امانت دار انسان کی حیثیت سے مکہ میں مشہور ہو چکےتھے۔ ایک روایت کے مطابق، آپ کے چچا ابو طالب کی درخواست پر خدیجہ نے اپنے تجارتی سفر کا ذمہ دارمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا اور انہیں اپنے تجارتی اونٹوں کے ساتھ شام بھیجا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس آئے تو خدیجہ کو معلوم ہوا کہ اُن کے تجارتی سفر میں پہلے سے زیادہ نفع حاصل ہوا ہے۔ خدیجہ خوش ہو گئیں۔ انہوں نے معاوضہ کودُ گنا کرتے ہوئے آپ کو دو اُونٹ دیے۔

ان تجارتی سفروں میں خدیجہ کا غلام میسرہ پیغمبر اسلام کے ساتھ ہوتا تھا۔ میسرہ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اورحسنِ تدبیر کے بارے میں خدیجہ کو بتایا۔ نیز خدیجہ کوخودبھی آپ کے بارے میں اچھے تجربات ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدیجہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ آپ کو اپنا رفیق حیات بنائیں ۔ روایات کے مطابق، خدیجہ نے مکہ کی ایک معمر خاتون کے ذریعہ آپ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ آپ نے اپنے چچا سے مشورہ کے بعد اُس کو قبول کر لیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح خدیجہ کے ساتھ ہوگیا۔ اس تقریب میں دونوں طرف کے اہل خاندان شریک ہوئے۔ نکاح کے وقت خدیجہ کی عمر چالیس سال اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس سال تھی۔

خدیجہ سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح نبوت سے تقریباً پندرہ سال پہلے ہوا تھا۔ ان پندرہ سالوں میں خدیجہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں قریب سے مشاہدہ اور مطالعہ کا موقع ملا ۔ وہ یقین کے درجہ میں سمجھ چکی تھیں کہ محمد بن عبد اللہ ہر اعتبار سے ایک کامل انسان ہیں ۔ اُس زمانہ میں پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم ایک متلاشیٔ حق تھے ۔ اس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے:وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى(93:7)۔یعنی، اور تم کو متلاشی پایا تو تم کو راہ دکھائی ۔

اس زمانہ میں آپ کا معمول تھا کہ آپ مکہ کے قریب حرا پہاڑ کے ایک غار میں چلے جاتے اور وہاں ذکر وفکر میں مشغول ہو جاتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ آپ غار حرا سے واپس آئے تو آپ کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار تھے ۔ آپ نے گھر میں داخل ہو کر اپنی اہلیہ خدیجہ سے کہا:زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي(صحیح البخاری، حدیث نمبر3)۔مجھے کمبل اوڑھاؤ، مجھے کمبل اوڑھا ؤ۔اسی واقعہ کی طرف قرآن کی ایک ابتدائی سورہ میں اس طرح اشارہ کیا گیاہے:يَاأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ،قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا (73:1-2)۔یعنی، اے کپڑے میں لپٹنے والے، رات میں قیام کر مگر تھوڑا حصہ۔

خدیجہ نے آپ کی یہ حالت دیکھ کر اس کا سبب دریافت کیا۔ آپ نے جواب دیا کہ آج غارِ حرا میں میرے ساتھ ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد آپ نے وہ تجربہ بتایا جو فرشتہ جبرئیل کی آمد کے وقت پیش آیا تھا جب کہ وہ پہلی وحی اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(96:1)لے کر آپ کے پاس آئے۔ اس وقت خدیجہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتسلی دی اور آپ کے بارے میں وہ تاریخی الفاظ کہے جو سیرت کی کتابوں میں اس طرح نقل ہوئے ہیں:

فَقَالَتْ خَدِيجَةُ:كَلَّا وَاللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3)۔خدیجہ نے کہا کہ ہرگز نہیں،بخدا،اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ رشتہ داروں کا حق ادا کرتے ہیں اور لوگوں کے بوجھ کو اٹھاتے ہیں اور مفلس کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اورمہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کے معاملہ میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی۔ یہ زمانہ مذہبی عدم رواداری کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں مذہبی آزادی کا وجود نہ تھا۔ چنانچہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اُس وقت انہیں مشرکین کی طرف سے سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت خدیجہ پورے معنوں میں آپ کی رفیقۂ حیات ثابت ہوئیں۔ وہ فوراً ہی آپ کی نبوت پر ایمان لائیں اور آپ کے مشن کے سلسلہ میں آپ کی کامل مددگار بن گئیں۔ اُن کی مدد اور رفاقت کے سلسلہ میں کئی مؤثر واقعات سیرت اور حدیث کی کتابوں میں آئے ہیں۔

اس سلسلہ میں ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی آئی اور ایک نئے تجربہ کی بنا پر آپ اس پر گھبرااُٹھے، اُس وقت خدیجہ نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اُس وقت مکہ میں ایک عالم رہتے تھے۔ اُن کا نام ورقہ بن نوفل تھا۔ جاہلیت کے زمانہ میں اُنہوں نے بائبل کا مطالعہ کیا تھا اور اُنہوں نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا۔ روایت میں آیا ہے کہ خدیجہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو آپ کے رشتہ دار بھی تھے۔ خدیجہ نے ان کو آپ کا حال بتایا۔ ورقہ بن نوفل نے آپ کی کیفیت اور آپ کے پاس جبریل کی آمد کا واقعہ سنا اور پھر کہا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں ورقہ کی جان ہے، اے خدیجہ، تم نے جو کچھ بتایا اگر وہ سچ ہے تو محمد کے پاس وہی عظیم فرشتہ آیا ہے جوموسیٰ کے پاس آتا تھا۔ اور محمد بلاشبہ اس امت کے پیغمبر ہیں(سیرۃ ابن ہشام،جلد1،صفحہ238)۔

نبوت کے بعد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا وقت توحید کے مشن میں صرف ہونے لگا۔ تجارت بھی چھوٹ گئی۔ اس کے بعد آپ کی پوری کفالت، نیز مشن کے سلسلہ میں سارے اخراجات کی ذمہ دار خدیجہ بن گئیں۔ اُنہوں نے اپنی پوری دولت آپ کے لیے اور آپ کے مشن کے لیے وقف کردی۔ قرآن کی اس آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى(93:8)۔یعنی، اور تم کو نادار پایا تو تم کو غنی کردیا۔

اُس زمانہ میں مکہ میں بت پرستی کا رواج تھا۔ مکہ کے لوگ شرک میں مبتلا تھے ۔ ایسی حالت میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید لوگوں کو سخت ناگوار ہوتی تھی ۔ انہوں نے آپ کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا ۔ وہ آپ کے راستہ میں رکاوٹیں ڈال دیتے۔ آپ کے گھر کے پاس آ کر شور کرتے۔ ان تمام مصیبتوں میں خدیجہ پورے صبر اور خوش دلی کے ساتھ شریک ر ہیں ۔ انہی حالات میں ایک بار ایسا ہوا کہ فرشتہ جبرئیل پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اُس نے کہا کہ میری طرف سے اور میرے رب کی طرف سے خدیجہ کو آپ سلام پہنچا دیں اور اُن کو یہ خوش خبری دے دیں کہ ان کے لیے جنت میں یاقوت کا ایک گھر ہو گا جس میں شور ہوگا اورنہ تکلیف:

 أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللهِ:هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ، أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلاَمَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَ صَخَبَ فِيهِ، وَلاَ نَصَبَ (صحيح البخاری، حدیث نمبر3820)۔

مکی دور کے آخری زمانہ میں مکہ کے مشرک سرداروں نے آپ کے خلاف ایک بے حدسنگین فیصلہ کیا۔ انہوں نے متفقہ طور پر ایک صحیفہ تیار کیا جس کو کعبہ کے اندر آویزاں کیا گیا۔ اس صحیفہ میں لکھا گیا تھا کہ مکہ میں کوئی شخص محمد اور ان کے خاندان کے ساتھ خرید و فروخت نہیں کرے گا۔ ان کے ساتھ نکاح یا قرابت کا معاملہ نہیں کرے گا، وغیرہ ۔ یہ صحیفہ در اصل مقاطعہ(بائیکاٹ) کا فیصلہ تھا۔ اس کے بعد پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم مجبور ہوکر مکہ کے قریب ایک پہاڑی گھاٹی میں چلے گئے جس کو شعب ابی طالب کہا جاتا تھا۔ اس بائیکاٹ میں خدیجہ بھی ان کے ساتھ شریک تھیں۔

شعب ابی طالب کی یہ زندگی بے حد تکلیف کی زندگی تھی ۔ وہاں نہ آرام تھا اور نہ کھانے پینے کا سامان۔حتیٰ کہ درخت کی جڑیں اور پتیاں کھانے کی نوبت آگئی۔ مکہ کے بعض رحم دل حضرات رات کے اندھیرے میں کچھ کھانے کا سامان بھی پہنچا دیتے۔ مگر وہ بالکل کافی نہ تھا۔ چنانچہ خدیجہ سخت بیمار ہوگئیں۔ اُن کا رنگ کالا پڑ گیا۔ وہ نہایت صبر کے ساتھ اس تکلیف کو جھیلتی رہیں ۔ یہاں تک کہ ہجرت سے تین سال پہلے مکہ میں ان کا انتقال ہوگیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom