نکاح کی حکمت
جیسا کہ معلوم ہے، عائشہ صدیقہ کا نکاح جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا اُس وقت ان کی عمر دس سال سے کم تھی ۔ نکاح کے بعد وہ پورے مدنی دور میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں۔ یہ مدنی دور جو دس سال پر مشتمل ہے، اسلام کی ابتدائی تاریخ کا سب سے زیادہ پُر از واقعات(eventful)دور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس پورے مدنی دور میں وہ مسلسل طور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں، حتی کہ وہ سفر میں بھی آپ کے ساتھ ہوتی تھیں ۔ اس طرح یہ دس سالہ زمانہ عائشہ صد یقہ کے لیے گویا ایک زندہ مدرسہ کے ساتھ وابستگی کا زمانہ ہے۔
کم عمری میں عائشہ صدیقہ کا نکاح جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا اس کا اصل مقصد یہی تھا۔ عائشہ صدیقہ اس وقت اپنی عمر کے اس حصہ میں تھیں جس کوتشکیلی دور (formative period)کہا جاتا ہے۔ نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً دس سال کی عمر تک ہر مرد اور عورت کا ذہن بڑی حد تک بن جاتا ہے۔ اس کی کنڈیشننگ اتنی زیادہ ہو چکی ہوتی ہے کہ بعد کے مرحلہ میں اس کو توڑنا بے حد مشکل ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ صدیقہ کے والد ابوبکر صدیق نے اس راز کو سمجھا۔ انہوں نےسوچے سمجھے نقشہ کے مطابق، اپنی ذہین صاحبزادی کا نکاح کم عمری میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کردیا۔یہ کا م خلیفہ ٔ اوّل ابوبکر صدیق کی کامل رضامندی کے تحت پیش آیا۔ اس میں بیک وقت گہرا اخلاص بھی شامل تھا اور اسی کے ساتھ اعلیٰ ہوش مندی بھی۔
اس نکاح یا دوسرے لفظوں میں تعلیمی منصوبہ بندی کا وہ نتیجہ سامنے آیا جو پوری انسانی تاریخ میں غالباً واحد مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس منصوبہ بندی کے نتیجہ میں عائشہ صدیقہ جیسی ایک قابل شخصیت تیار ہوئی جس کو اپنی عمر کے ریسیپٹیو(receptive)مرحلہ میں پیغمبر کامل کی صحبت میں اپنے آپ کو تیار کر نے کا موقع ملا۔ اس طرح وہ علمِ نبوت کی مکمل وارث بن گئیں اور پھر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تقریبا پچاس سال تک لوگوں کے درمیان علم نبوت کی اشاعت کرتی رہیں ۔ وہ گویا پرنٹنگ پر یس اور ٹیپ ریکارڈر کے دور سے پہلے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زندہ ٹیپ ریکارڈر بن گئیں۔
نبوت کی علمی فیض رسانی کا یہ سلسلہ عائشہ صدیقہ کے ذریعہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی لمبی مدت تک جاری رہا۔ ایسا صرف اس لیے ممکن ہوا کہ اُن کا نکاح کم عمری میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگیا تھا ۔ اگر ایسا ہوتاکہ جو عمر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی تقریباًوہی عمر عائشہ صدیقہ کی بھی ہوتی تو دونوں کی وفات کسی قد رفرق کے ساتھ ایک ہی وقت میں ہو جاتی ۔ جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان بند ہوتی تو عائشہ صدیقہ کی زبان بھی ساتھ ہی بند ہو جاتی اور علم نبوت کی فیض رسانی کا سلسلہ بھی اچانک ٹوٹ جاتا۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ پیغمبر سے اکتسابِ علم کا یہ معاملہ کسی مرد کے ساتھ نہیں ہوسکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے ایک خاتون درکارتھیں جو زوجہ کی حیثیت سے مستقل طور پر آپ کے ساتھ رہیں۔ مسلسل صحبت کا تعلق صرف زوجہ کے ساتھ ہوسکتا تھا، نہ کسی عام مرد کے ساتھ ۔ ان مصلحتوں کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو عائشہ صدیقہ کا مذکورہ نکاح ایک ایسا دوررس منصوبہ تھا جس کا فائده قیامت تک کے لیے پوری انسانیت کو حاصل ہوا۔ اس معاملہ کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے اور اس پر غیر جانبدارانہ انداز سے رائے قائم کی جائے تو یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ جو ہوا وہی ہوسکتا تھا۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے کوئی دوسرا متبادل سرے سے موجود ہی نہ تھا۔
دین اسلام کا اصل ماخذ قرآن و حدیث ہے ۔ قرآن و حدیث کو اسلام کا متن (text) کہہ سکتے ہیں۔ یہ متن گو یا دینِ اسلام کالفظی بیان(literal statement)ہے۔ جو آدمی یہ جاننا چا ہے کہ اسلام کیا ہے وہ قرآن و حد یث کے مطالعہ سے اس کو معلوم کر سکتا ہے۔
تاہم ایک اور چیز ہے جس کی دین میں بے حد اہمیت ہے اور وہ صحبت ہے۔ صحبت کا مطلب مجلس میں خاموش بیٹھنا نہیں ہے،بلکہ اس میں فکری تبادلہ(intellectual exchange)لازمی طور پر شامل ہے۔ حقیقی معنوں میں صحبت یافتہ وہ ہے جو مجلس میں اس طرح شرکت کرے کہ وہ صاحب مجلس سے با قاعدہ استفادہ کر رہا ہو۔ وہ سوال و جواب کی صورت میں اپنے علم کو بڑھارہا ہو۔ وہ غیرواضح امورکو مزید گفتگو کے ذر یعہ واضح بنارہا ہو اور اسی کے ساتھ وہ صاحب مجلس کے تجر بہ، اس کی روحانیت، اور اس کی خدا رسیدگی سےشخصی فیض حاصل کر رہا ہو۔
صحابہ کرام اسی صحبت رسول کی عملی مثالیں ہیں مگر عائشہ کی صورت میں ایک استثنائی مثال قائم کی گئی جو صحبت کی کامل مثال تھی۔ جو صحبت کے فوائد کا کامل نمونہ تھی ۔ مزید یہ کہ یہ نمونہ ایک ایسا نمونہ بن گیا جو پیغمبر ا سلام کی وفات کے بعد بھی لمبی مدت تک لوگوں کو صحبت کی اہمیت سے آگاہ کرتا رہے۔
عائشہ صدیقہ گویا صحبت کی زندہ تفسیر ہیں ۔ ان کی زندگی میں صحبت کے اصول نے گویا ایک اداره(institution)کی صورت اختیار کر لی۔ اب اس ادارہ کو امت کے اندر مستقل طور پر زندہ رکھنا ہے۔ ہر نسل کے سینئر افراد کو چاہیے کہ وہ اگلی نسل کے مردوں اور عورتوں کو صحبت کا یہ فیض پہنچاتے رہیں۔ تا کہ دین اسلام نہ صرف متن(text)کے اعتبار سے محفوظ رہے بلکہ صحبت کے ادارہ کی صورت میں اس کا ذہنی اور روحانی فیض بھی ہمیشہ جاری رہے۔