آسیہ بنت مزاحم
دوسری مثال آسیہ بنت مزاحم کی ہے۔ وہ حضرت موسیٰ کی ہم عصر تھیں ۔ وہ غالباً بنی اسرائیل سے تعلق رکھتی تھیں۔ مصر کے بادشاہ فرعون نے ان سے نکاح کر کے ان کو اپنے محل میں رکھا۔ وہ وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ پر ایمان لائیں اور سچے دل سے خدا پرستانہ زندگی اختیار کر لی ۔ آسیہ بنت مزاحم کا تذکرہ قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے:
اور اللہ ایمان والوں کے لیے مثال بیان کرتا ہے فرعون کی بیوی کی، جب کہ اس نے کہا کہ اے میرے رب،میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھ کو فرعون اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھ کو ظالم قوم سے نجات دے(66:11)۔
آسیہ بنت مزاحم بادشاہِ مصر کی ملکہ تھیں ۔ وہ شاہی محل میں رہتی تھیں ۔ ہر قسم کا عیش و آرام اُن کو حاصل تھا۔ مگر یہ مادی کامیابی ان کو غافل یا سرکش نہ بنا سکی۔ جب حضرت موسیٰ کی دعوت اُنہیں پہنچی تو اپنے کھلے ذہن کی وجہ سے فوراًانہوں نے اس کو قبول کر لی اور اپنی زندگی خدا اور پیغمبر کی اطاعت میں گزار نے لگیں۔
فرعون شرک کے مذہب کو اختیار کیے ہوئے تھا جو اس کے لیے مصر کے قدیم مشرکانہ سماج میں اپنی سیاسی حکمرانی قائم کرنے کے لیے بہت مفید تھا۔ حضرت موسیٰ نے جب مصر میں توحید کی دعوت بلند کی تو ان کا دشمن بن گیا اور توحید کی دعوت مٹانے کے درپے ہو گیا۔
فرعون نے آسیہ بنت مزاحم کو دو میں سے ایک کا اختیار(option)د یا۔ یا تو موسیٰ کے دین کو چھوڑ دو، ورنہ تم کو بغاوت کے جرم میں قتل کر دیا جائے گا۔ موسیٰ کے دین کو چھوڑ نا جنت کو چھوڑنے کے ہم معنیٰ تھا، جب کہ فرعون کے حکم کو نہ ماننے سے صرف وقتی طور پر شاہی محل سے محرومی ہورہی تھی۔ آسیہ بنت مزاحم نے سچے طالب حق کی حیثیت سے یہ فیصلہ کیا کہ وہ شاہی محل سے محرومی کو گوارا کر لیں مگر وہ خدا کی جنت سے محرومی کو گوارا نہ کریں ۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسیہ بنت مزاحم کو فرعون کے حکم سے قتل کر دیا گیا۔ آخر وقت میں آسیہ بنت مزاحم کی زبان پر جودعاتھی وہ اتنی بامعنیٰ تھی کہ قرآن نے اس کو ہمیشہ کے لیے ان الفاظ میں شامل وحی کر دیا ہے:رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ(66:11)۔یعنی،اے میرے رب تو میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے۔
قرآن میں اس دعا کو نقل کرنا گویا خدا کی طرف سے اُس کی قبولیت کا ایک بالواسطہ اعلان ہے۔ آسیہ بنت مزاحم کی زندگی کا یہ جزء ساری خواتین کے لیے(نیز مردوں کے لیے) اس بات کی خوش خبری ہے کہ خداپرستانہ زندگی اختیار کرنے کے لیے اگر دنیا کی جنت کھوئی جارہی ہو تو اس کی پرواہ نہ کرنا۔ کیوں کہ جو عورت یا مرد خالص خدا کے لیے دنیا کی عارضی جنت کو چھوڑے گا اس کے لیے خدا آخرت کی ابدی اور معیاری جنت مقدر کر دے گا ۔ اور بلا شبہ اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ۔