خدا پر بھروسہ

قرآن میں طلاق کے ذکر کے تحت کچھ نصیحتیں کی گئی ہیں‌۔ یہ نصیحتیں قرآن کی سورہ الطلاق میں آئی ہیں‌۔ متعلقہ آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:

اے پیغمبر، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت پر طلاق دو اور عدت کو گنتے رہو، اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے۔ ان عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خودنکلیں، إلا یہ کہ وہ کوئی کھلی بے حیائی کریں، اور یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنے اوپر ظلم کیا،تم ‌نہیں جانتے شاید اللہ اس طلاق کے بعد کوئی نئی صورت پیدا کر دے۔ پھر جب وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو ان کو یا تو معروف کے مطابق رکھ لو یا معروف کے مطابق ان کو چھوڑ دو اور اپنے میں سے دو معتبر گواہ کر لو اور ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیے گواہی دو۔ یہ اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔ اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لیے راہ نکالے گا، اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ گیا ہو، اور جو شخص اللہ پربھر‌وسہ کرے گا تو اللہ اس کے لیے کا فی ہے، بے شک اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے، اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ ٹھہرارکھا ہے(65:1-3)۔

طلاق شوہر اور بیوی کے درمیان ایک بحران‌(crisis)کی حالت ہے۔ اس طرح کے چھوٹے یا بڑے کرائسس‌خاندانی زند گی میں برابر آتے رہتے ہیں‌۔ مذکورہ آیت میں ایک اہم نصیحت کی گئی ہے جو کرائسس‌مینجمنٹ‌(crisis management)کے لیے بنیادی‌اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ بنیادی اصول قرآن کے لفظ میں تو کل ہے، یعنی ہر صورت حال میں اللہ پر بھروسہ کرنا اور معاملہ کو پوری طرح اللہ کے اوپر ڈال دینا۔

بحران دراصل اس حالت کا نام ہے جب کہ کسی عورت یا مرد کے سامنے ایک ایسی صورت حال آ جائے جس میں وہ بظاہر اپنے آپ کو بے بس محسوس کر تا ہو۔ اگر مسئلہ ایسا ہو جس کو حل کرنا اس کے اختیار میں ہو تو ایسا مسئلہ اس کے لیے وہ چیز نہیں بنے گا جس کو بحران کہتے ہیں‌۔ بحر ان صرف اس صورت حال کا نام ہے جب کہ وہ یہ محسوس کرے کہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اس کی دستیاب صلاحیت کا فی نہیں‌۔ دوسرے لفظوں میں،اپنی محدودیت(limitations)کے احساس کا نام بحر ان ہے۔

ایسی حالت میں اگر عورت یا مرد کا ذہن اپنی محدودیت پر لگا رہے تو وہ صرف اپنی پریشانی میں اضافہ کرے گا۔ ایسی حالت میں سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے دائرہ میں جو کر سکتا ہے وہ کرے اور بقیہ کو خدا کے خانہ میں ڈال دے۔ وہ معتدل انداز میں اپنی کو شش کر تے ہوئے انجام کے معاملہ میں خدا کی ذات پر بھروسہ کرے۔

اس طریقہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ متعلقہ عورت یا مرد کا ذہن فوری طور پر معتدل ہو جاتا ہے، یہ چیز اس کو منفی سوچ سے ہٹا کر مثبت سوچ کی طرف موڑ دیتی ہے۔ وہ اس پوزیشن میں ہو جاتا ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو بھر پور طور پر مسئلہ کے حل کے لیے استعمال کر کے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ فطرت کے نظام کو اپنا کام کر نے کا موقع مل جاتا ہے۔ انسانی جسم کے اندر یہ نظام ہے کہ اس میں کوئی خلل واقع ہو تو فورا ًپورا جسم اس کو درست کر نے کے لیے متحرک ہو جاتا ہے۔

یہی معاملہ وسیع تر زندگی کا بھی ہے۔ زندگی میں جب کوئی بحران پیدا ہو تو فطرت کا نظام فوراً اس کی درستگی کے لیے حرکت میں آ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اللہ پر توکل کر کے اپنے کو تھام لیناگو یا فطرت کے نظام کو اپنا کام کر نے کا موقع دینا ہے، یہ موقع کہ وہ متحرک ہو کر معاملہ کو درست کر دے۔

بحران کے حل کا یہ فارمولا بلا شبہ ایک کامیاب فارمولا ہے۔ وہ ہر صورت حال میں قابل استعمال ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ عورت یا مرد پر جب بھی ایسی کوئی چھوٹی یا بڑی صورت حال پیش آئے تو وہ سوچے۔ ایسے موقع پر وہ سوچ سے اپنے عمل کا آغاز کرے، نہ کہ اقدام سے۔ یہی کرائسس مینجمنٹ کا سب سے زیادہ کارگر فارمولا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom