ہاجرہ ام اسماعیل

اس سلسلہ میں ایک نام حضرت ہاجرہ(یا هاجر)کا ہے۔ وہ پیغمبر ابراہیم کی بیوی تھیں۔ ان سے ایک اولاد پیدا ہوئی جن کا نام اسماعیل رکھا گیا ۔ ایک خدائی منصوبہ کے تحت حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اور ان کے چھوٹے بچے کو عرب میں مکہ کے مقام پر لے جا کر بسا دیا جو اس وقت بالکل غیر آباد تھا۔ اس واقعہ کے بارے میں قرآن میں مختصر طور پر یہ حوالہ ملتا ہے:

اور جب ابراہیم نے کہا، اے میرے رب، اس شہر کو امن و الا بنا اور مجھ کو اور میری اولا د کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں ۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کر دیا ۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے۔ اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بے کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تا کہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور اُن کو پھلوں کی روزی عطا فرما، تا کہ وہ شکر کریں (14:35-37)۔

ہاجرہ کے بارے میں قرآن میں صرف مختصر اشارہ آیا ہے۔ تاہم حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ہاجرہ کے بارے میں تفصیلی روایت موجود ہے۔ یہ روایت یہاں نقل کی جاتی ہے۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ہاجرہ نے کمر پٹّہ باندھا تا کہ سارہ کو اُن کے بارے میں خبر نہ ہو سکے ۔ پھر ابراہیم،ہاجرہ اور ان کے بچے اسماعیل کو مکہ میں لے آئے ۔ اس وقت ہاجرہ  اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ابراہیم نے ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں زمزم ہے۔ اس وقت مکہ میں ایک شخص بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ ابراہیم  نے کھجور کا ایک تھیلا اور پانی کی ایک مشک وہاں رکھ دیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے ۔ ہاجرہ  ان کے پیچھے نکلیں اور کہا کہ اے ابراہیم،ہم کو اس وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ ہاجرہ نے ابراہیم  سے یہ بات کئی بارکہی اور ابراہیم  نے ہاجرہ  کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہاجرہ نے ابراہیم سے کہا کہ کیا اللہ نے آپ کو اسی کا حکم دیا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہاں۔ ہاجرہ نے کہا پھر تو اللہ ہم کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہاجرہ لوٹ آئیں۔ ابراہیم جانے لگے۔ یہاں تک کہ جب وہ مقامِ ثنیہ پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو انہوں نے اپنارخ ادھر کیا جہاں اب کعبہ ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ:اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولا د کو ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کچھ نہیں اُگتا۔یہاں تک کہ آپ لفظ یشکر ون تک پہنچے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3364)۔

ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتیں ۔ یہاں تک کہ جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو وہ پیاسی ہوئیں اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی ۔ انہوں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ پیاس سے بے چین تھا۔ بیٹے کی اس حالت کو دیکھ کر مجبور ہو کر وہ نکلیں ۔ انہوں نے سب سے قریب پہاڑ صفا کو پایا ۔ چنانچہ وہ پہاڑ پر چڑھیں اور وادی کی طرف دیکھنے لگیں کہ کوئی شخص نظر آ جائے ۔ وہ کسی کو نہ دیکھ سکیں ۔ و ہ صفا سے اتریں۔ یہاں تک کہ جب وہ وادی تک پہنچیں تو اپنے کُرتہ کا ایک حصہ اُٹھایا پھر وہ تھکاوٹ سے چور انسان کی طرح دوڑیں ۔ وادی کو پار کر کے وہ مروہ پہاڑ پر آئیں۔ اس پر کھڑے ہو کر انہوں نے دیکھا تو کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اس طرح انہوں نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر کیے ۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ پھر وہ مروہ پر چڑھیں ۔ انہوں نے ایک آوازسُنی ۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگیں کہ چپ رہ۔پھر سُنناچاہا تو وہی آواز سُنی ۔ انہوں نے کہا کہ تو نے اپنی آواز مجھ کو سنا دی تو اس وقت ہماری مدد کر سکتا ہے۔ دیکھا تو مقام زمزم کے پاس ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ نے اپنی ایڑی یا پنکھ زمین میں ماری، پانی نکل آیا۔ ہاجرہ اُس کوحوض کی طرح بنانے لگیں اور ہاتھ سے اس کے گرد مینڈبنانے لگیں ۔ وہ پانی چلّو سے لے کر اپنی مشکل میں بھرتیں ۔ وہ جس قدر پانی بھرتیں چشمہ اتنا ہی زیادہ اُبلتا ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله ہاجرہ پررحم کرے، اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں یا آپ نے یہ فر مایا کہ اگر وہ چلّو بھر کر پانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا چشمہ ہوتا ۔ ہاجرہ  نے پانی پیا اور اپنے بیٹے کو پلایا۔ فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ تم ضائع ہونے کا اندیشہ نہ کرو ۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ بچہ اور اس کے باپ دونوں اس گھر کو بنائیں گے اور اللہ اپنے گھر والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اس وقت گھر(کعبہ)ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا۔ سیلاب آتا اور وہ اس کے دائیں بائیں جانب سے نکل جاتا ۔ کچھ دنوں تک ہاجرہ  نے اسی طرح زندگی گزاری۔ یہاں تک کہ جرہم قبیلہ کے کچھ لوگ یا جرہم کے گھر والے کدا کے راستہ سے آرہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ میں اُترے۔ انہوں نے وہاں ایک پرندہ کو دیکھا جو گھوم رہا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی پر گھومتا ہے۔ ہم اس وادی میں رہے ہیں اور یہاں پانی نہ تھا ۔ انہوں نے ایک یا دو آدمی کوخبر لینے کے لیے بھیجا۔ اُنہوں نے پانی دیکھا۔ وہ واپس لوٹ کر گئے اور لوگوں کو پانی کی خبر دی ۔ وہ لوگ بھی آئے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ پانی کے پاس تھیں ۔ انہوں نے ہاجرہ سے کہا کہ کیا تم ہم کو یہاں ٹھہر نے کی اجازت دیتی ہو۔ ہاجرہ نے کہا کہ ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ خود چاہتی تھیں کہ یہاں انسان آباد ہوں ۔ اُن لوگوں نے یہاں پر قیام کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی بلا بھیجا، وہ بھی یہیں ٹھہرے۔ جب مکہ میں کئی گھر بن گئے اور اسماعیل  جوان ہو گئے اور اسماعیل  نے جرہم والوں سے عربی زبان سیکھ لی۔ جرہم کے لوگ ان سے محبت کرنے لگے تو انہوں نے اپنی ایک لڑکی سے ان کی شادی کر دی ۔ ہاجرہ کا انتقال ہوگیا۔ جب اسماعیل کی شادی ہوچکی تو ابراہیم اپنی اولاد کو دیکھنے آئے۔ انہوں نے وہاں اسماعیل کو نہیں پایا۔ چنانچہ اُن کی بیوی سے ان کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں ۔ ابراہیم نے اس سے اُن کے گذر بسر اور حالت کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا کہ ہم تکلیف میں ہیں ۔ ہم بہت ز یا دہ تنگی میں ہیں ۔ اس نے ابراہیم سے شکایت کی ۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہرآئیں تو تم ان کو میرا سلام کہنا اور ان سے یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دیں ۔ جب اسماعیل آئے۔ اُنہوں نے کچھ محسوس کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا۔ اس نے کہا کہ ہاں ۔ ایک بوڑھا شخص اس صورت کا آیا تھا۔ انہوں نے آپ کے بارے میں پوچھا،میں نے ان کو بتایا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہماری گز ر کیسے ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اورتنگی سے۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا انہوں نے تم سے اور کچھ کہا ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے مجھ سے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دو ۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے۔ انہوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو چھوڑ دوں۔ تم اپنے گھر والوں میں چلی جاؤ۔ اسماعیل نے اُس کو طلاق دے دی۔ اور جرہم کی ایک دوسری عورت سے اُنہوں نے شادی کر لی۔ ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جس قد ر اللہ نے چاہا ۔ اس کے بعد ابراہیم اسماعیل کے یہاں آئے تو پھر اُن کو نہیں پایا۔ وہ اسماعیل کی بیوی کے پاس آئے اور اُس سے اسماعیل کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں ۔ ابراہیم نے کہا کہ تم لوگ کیسے ہو ۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ خیریت سے ہیں اور کشادگی کی حالت میں ہیں ۔ اس نے اللہ عز وجل کی تعریف کی۔ ابراہیم نے کہا کہ تمہارا کھانا کیا ہے۔ اس نے کہا کہ گوشت ۔ ابراہیم نے کہا کہ تم کیا پیتے ہو۔ اس نے کہا کہ پانی۔ ابراہیم نے دعا کی کہ اے اللہ تو ان کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت مکہ میں اناج نہ تھا۔ اور اگر وہاں اناج ہوتا تو ابراہیم اس میں بھی برکت کی دعا کرتے ۔ مکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے لوگ اگر گوشت اور پانی پر گزر کریں تو وہ ان کو موافق نہ آئے ۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم ان کو میرا سلام کہنا اور میری طرف سے ان کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں ۔ پس جب اسماعیل آئے تو انہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی شخص آیا تھا۔ اس نے کہا کہ ہاں، ہمارے پاس ایک اچھی صورت کےبزرگ آئے تھے اور اس نے آنے والے کی تعریف کی۔ انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے انہیں بتایا۔ انہوں نے مجھ سے دو بارہ ہمارے گزر بسر کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا انہوں نے تم سے کچھ اور بھی کہا ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ انہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو باقی رکھیں ۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے اور تم چوکھٹ ہو۔ انہوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے پاس باقی رکھوں۔پھر ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا ۔ اس کے بعد وہ آئے اور اسماعیل زمزم سے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے اپنے تیر درست کر رہے تھے۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو وہ کھڑے ہو گئے ۔ پس ہم نے وہی کیا جو ایک باپ اپنے بیٹے سے اور ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ اے اسماعیل، اللہ نے مجھ کو ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ پھر جو آپ کے رب نے حکم دیا ہے اسے کرڈالیے۔ ابراہیم نے کہا کہ کیا تم میری مدد کرو گے ۔ اسماعیل نے کہا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔ ابراہیم نے کہا کہ اللہ نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور ابراہیم نے اس کے گرد ایک بلند ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس وقت ان دونوں نے گھر کی بنیاد اٹھائی ۔ اسماعیل  پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جب دیوار اونچی ہوگئی تو اسماعیل یہ پتھر( حجر اسود)لائے اور اس کو وہاں رکھ دیا۔ ابراہیم اس پتھر پر کھڑے ہوکر تعمیر کرتے تھے اور اسماعیل اُن کو پھر دیتے تھے۔ اور وہ دونوں کہتے تھے کہ اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر، بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ پس و ہ دونوں تعمیر کرتے اور اس گھر کے اردگرد یہ کہتے ہوئے چکر لگا تے کہ اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر۔ بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے(صحيح البخاری،حدیث نمبر 3364)۔

ہاجرہ کے شوہر حضرت ابراہیم بن آزر تقریبا ًساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور ایک سو پچھتر سال کی عمر پا کر ان کی وفات ہوئی ۔ انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو توحید کی دعوت دی مگر شرک اور بت پرستی کا غلبہ ان لوگوں کے ذہن پر اتنا زیادہ ہو گیا تھا کہ وہ تو حید کے پیغام کو قبول نہ کر سکے ۔ حضرت ابراہیم نے ایک سے زیادہ جنریشن تک لوگوں کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر اس زمانہ میں شرک ایک تہذیب کی صورت اختیار کر کے لوگوں کی زندگی میں اس طرح شامل ہو چکا تھا کہ وہ اس سے الگ ہو کر سوچ نہیں سکتے تھے۔ پیدا ہوتے ہیں ہر آدمی کو شرک کا سبق ملنے لگتا تھا۔ یہاں تک کہ ماحول کے اثر سے اُس کا ذہن پوری طرح شرک میں کنڈیشنڈ ہو جاتا تھا۔

اُس وقت اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ متمدّن شہروں سے باہر غیر آباد صحرا میں ایک نسل تیار کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت ابراہیم نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور چھوٹے بچے اسماعیل کو اس مقام پر لا کر چھوڑ دیا جہاں اب مکہ آ باد ہے۔ یہ جگہ مشرکانہ تمدن سے مکمل طور پر خالی تھی ۔یہ فطرت کی ایک دنیا تھی جہاں خدائی تخلیق کے مناظر کے سوا اور کوئی چیز موجود نہ تھی ۔ فطرت کے اس سادہ ماحول میں توالد و تناسل کے ذریعہ ایک نئی نسل بننا شروع ہوئی ۔ اس نسل کے بننے میں دو ہزار سال سے زیادہ کی مدت لگ گئی۔پھر وہ وقت آیا جب کہ اس نسل کے اندر پیغمبر آخر الز ماں کا ظہور ہوا۔ اس نسل کو تاریخ میں بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔یہ بنو اسماعیل گویا بالقوہ مسلمان(potentially Muslims) تھے۔

چنانچہ انبیاء کی طویل تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پیغمبر آخر الزماں کو بہت کم مدت میں طاقتور ساتھیوں کی ایک ٹیم مل گئی۔ اس ٹیم نے جس کو اصحابِ پیغمبر کہا جاتا ہے، اپنی مجاہد انہ قربانیوں کے ذریعہ توحید کو ایک نظریاتی تحریک سے اُٹھا کر عملی انقلاب تک پہنچا دیا۔ ایسے انقلاب کو واقعہ بنانے کے لیے ایک جانداری ٹیم در کار تھی، اور یہ جا ندارٹیم بلاشبہ ہاجرہ کی قربانی کے ذریعہ بن کر تیار ہوئی۔

جیسا کہ البخاری کی مذکورہ روایت سے واضح ہوتا ہے، اس موحّدانہ انقلاب میں ہاجرہ کا رول بے حد بنیادی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہاجرہ کی بے مثال قربانی کے ذریعے یہ ممکن ہوا کہ تاریخ کاوہ عظیم واقعہ ظہور میں آئے جس کو اسلامی تاریخ کہا جاتا ہے۔ بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مشہور انگر یز ی مثل اگر سب سے زیادہ کسی خاتون پر صادق آتی ہے تو وہ ہاجرہ ہیں:

There is a woman at the beginning of all great things.

حج کی سالانہ عبادت کے لیے مکہ جانے والے تمام حاجی صفا اور مروہ کے درمیان سات بارسعی کرتے ہیں۔ یہ در اصل ہاجرہ کی سعی کی تقلید ہے۔ اللہ کو ہاجرہ کی سعی اتنی پسند آئی کہ اُس نے حکم دے دیا کہ تمام دنیا کے مسلمان جوحج کی عبادت کے لیے مکہ آئیں وہ ہاجرہ کے نقشِ قدم کی پیروی کریں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom