ا ستنبا طاتِ عائشہ

عائشہ صدیقہ سے حدیث کی مختلف کتابوں میں جو روایتیں منقول ہیں اُن کی کل تعداد 2210 ہے۔ تعداد روایت کے اعتبار سے بعض دوسرے صحابی اُ‌ن سے آگے ہیں‌۔مثلاً ابوہریرہ کی روایتوں کی تعداد 5364ہے۔ عبد اللہ بن عمر کی روایتوں کی تعداد 2630ہے۔ انس بن مالک کی روایتوں کی تعداد 2286ہے۔ مگر ایک معاملہ میں عائشہ صدیقہ کا درجہ سب سے بڑھا ہوا ہے۔ اور وہ ہے، حدیثوں کی تشریح اور اُ‌ن سے مسائل کا استنباط‌۔ عائشہ صدیقہ کو یہ امتیاز اس لیے حاصل ہوا کہ وہ پیغمبر اسلام سے قریبی صحبت کی بنا پر پیغمبر اسلام کے مزاج کے بارے میں زیادہ گہری واقفیت رکھتی تھیں‌۔ یہاں اس سلسلہ میں کچھ مثالیں نقل کی جاتی ہیں:

ا۔ صحیح البخاری میں عائشہ صدیقہ کی ایک تفصیلی روایت آئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: قرآن میں سب سے پہلے جو سورتیں نازل ہوئیں وہ مفصل کی سورتیں ہیں جن میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے تو پھر حلال و حرام کے احکام اُترے۔ اگر پہلے ہی یہ اُترتا کہ شراب مت پیو تو لوگ کہتے کہ ہم شراب ہرگز نہ چھوڑیں گے۔ اور اگر یہ اُ‌ترتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم ہر گز زنا نہ چھوڑیں گے۔ مکہ میں جب میں کھیلتی تھی تو قرآن کی یہ آیت اُ‌تری‌:اُ‌ن کے وعدہ کا وقت قیامت ہے اور قیامت نہایت سخت اور نہایت تلخ چیز ہے۔ سورۂ‌بقرہ اور سورۂ‌نساء جب اتری تو میں آپ کے پاس تھی‌(صحیح البخاری، حدیث نمبر‌4993)۔

عائشہ صدیقہ  نے اپنی اس روایت میں جو بات کہی وہ انہی لفظوں میں قرآن و حدیث میں موجود نہیں‌۔ مگر پیغمبر اسلام کی مسلسل محبت کے ذریعہ اُنہیں یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ قرآن کے احکام کے نزول میں تدریج کا اُ‌صول رکھا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن پر مبنی سماج بنانے کے عمل کا آغاز حدود اور قانون کے احکام کے نفاذ سے نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اُس کا صحیح آغاز یہ ہے کہ پہلے انسان کی سوچ بدلی جائے۔ انسان کے اندر احکام کی قبولیت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ یعنی فکری انقلاب کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ عملی احکام کو کسی سماج میں نافذ کیا جائے۔ عائشہ صدیقہ کو یہ اہم حقیقت یقینی طور پر پیغمبر اسلام سے طویل مذاکرہ کے ذریعہ معلوم ہوئی‌۔

2۔ عائشہ صدیقہ کی ایک روایت اس طرح آئی ہے :مدینہ کی جنگ بُعاث وہ واقعہ تھا جس کو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم‌کے لیے پہلے سے طے کر دیا تھا۔ رسول اللہ مدینہ آئے تو اُس وقت اہل مدینہ کی جمعیت منتشر ہو گئی تھی‌۔ اُن کے سردار باہمی جنگ میں مارے جا چکے تھے۔ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اُ‌ن کے اسلام میں داخل ہونے کے لیے یہ واقعہ پہلے ہی سے مہیاّ کر دیا تھا( صحیح البخاری،حدیث نمبر3777)۔

مکہ کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےمشن‌کی سخت مخالفت کی‌۔ جب کہ اُ‌س سے تین سو میل دور واقع مدینہ میں آپ کا پیغام کسی مزاحمت کے بغیر پھیل گیا۔ یہ فرق کیوں تھا۔ اس کا جواب عائشہ صدیقہ  کی مذکورہ روایت میں ملتا ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے،مکہ اور مدینہ کے اس فرق کا معاملہ قرآن یا حدیث رسول میں مذکور نہیں‌۔ پھر عائشہ صدیقہ کو یہ اہم حقیقت کیسے معلوم ہوئی‌۔ اُس کا ذریعہ صحبت رسول تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگوؤ‌ں میں اس سلسلہ میں جو باتیں کہتے تھے اُس سے عائشہ صدیقہ نے اس حقیقت کو اخذ کیا اور پھر اُس کو ساری امت کو بتا یا۔

عائشہ صدیقہ کی اس روایت کے مطابق، اصل بات یہ تھی کہ مکہ کے بر عکس، مدینہ میں وہ بڑے قبائلی سردار موجود ہی نہ تھے جو اس قسم کی مزاحمت کا اصل سبب ہو تے ہیں‌۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے کچھ ہی پہلے وہاں خانہ جنگی ہوئی جس میں مدینہ کے اکثر بڑے سر دار قتل ہو گئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی مشن کے خلاف مزاحمت کی تحریکیں ہمیشہ لیڈر لوگ چلا تے ہیں‌۔ پھر جب مدینہ میں وہاں کے لیڈر لوگ نہ رہے تو مزاحمت کی جڑ اپنےآپ کٹ گئی‌۔ چنانچہ عوام نے اسلام کو اپنی فطرت کی آواز سمجھ کر اس کو قبول کر لیا۔

3۔ صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں عائشہ صدیقہ کے شاگرد ابن ابی‌ملیکہ نے اُ‌ن سے پوچھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کسی کو خلیفہ بناتے تو کس کو بناتے۔ فرمایا ابو بکر کو۔ پوچھا اُ‌ن کے بعد، جو اب دیا عمر کو۔ سوال کیا کہ پھر،کہا‌ابوعبیدہ بن جرّ‌اح کو۔ اس کے بعد کس کو۔ اس کے جواب میں عائشہ صدیقہ چپ ہو گئیں‌(صحیح مسلم، حدیث نمبر2385)۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ صدیقہ نے پیغمبر اسلام کی محبت سے جو باتیں سیکھی تھیں اُ‌ن میں سے ایک اہم بات یہ تھی کہ اجتماعی معاملات میں فرد کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اجتماعی زندگی کی تعمیر صرف نظام یا سسٹم کے ذریعہ نہیں ہوتی‌۔ بلکہ اُ‌س کے لیے ہمیشہ ایک فرد درکار ہوتا ہے، ایک ایسا فرد جو خصوصی صلاحیتوں کا حامل ہو۔ عائشہ صدیقہ کے مطابق، اسلام کے دور اوّ‌ل کے انقلاب میں بھی صرف تین آدمی ایسے تھے جو کامیابی کے ساتھ اجتماعی ذمہ داری کو سنبھال سکیں‌۔ اس سے یہ مستنبط‌ہوتا ہے کہ اجتماعی اصلاح کے معاملہ میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ایک ڈھانچہ کو توڑ کر دوسرا ڈھانچہ بنا یا جائے۔ بلکہ اجتماعی اصلاح کی اصل ضرورت یہ ہے کہ اُس کے لیے اہل افراد تیار کیے جائیں‌۔ یہ سیا سی حکمت‌(political wisdom)جو عائشہ صدیقہ کے ذریعہ‌ا مت کو معلوم ہوئی وہ غالباً کسی‌اور کے ذریعہ معلوم نہ ہو سکی‌۔

4۔ عائشہ صدیقہ کی ایک روایت یہ ہے کہ بڑاگنہگار وہ شاعر ہے جو تمام قبیلہ کی ہجو کرے۔ یعنی صرف ایک دو شخص کی برائی کے سبب سے پورے قبیلہ کو بُرا کہہ دینا ایک عظیم اخلاقی بُر‌ائی ہے( الادب المفر د للبخاری،حدیث نمبر874)۔

عائشہ صدیقہ کی اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تنقید میں جنرلائزیشن‌نہایت بُری چیز ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ کسی قوم یا قبیلہ کے ایک فرد کی کوئی بُرائی سامنے آئے تو لوگ اس کو لے کر پوری قوم یا قبیلہ کو برا بتانے لگتے ہیں‌۔ یہ طریقہ اخلاقی نقطۂ نظر سے غیر ذمہ دارانہ اور اسلامی نقطۂ نظر سے نا جا ئز ہے۔ زندگی کا یہ گہرا‌اصول بھی اتنے واضح انداز میں غالباًصرف‌عائشہ کے ذریعہ بیان ہو سکا۔

5۔ ابو سلمہ تابعی کہتے ہیں کہ اُن کے اور کچھ لوگوں کے درمیان(زمین کے بارے میں) ایک نزاع تھی‌۔ اس کا ذکراُنہوں نے عائشہ صدیقہ سے کیا تو اُنہوں نے کہا کہ اے ابوسلمہ،تم اس زمین کو چھوڑ دو۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بالشت بھر زمین کے لیے بھی اگر کوئی ظلم کرے گا تو ساتوں طبقے اُس کے گلے میں ڈالے جائیں گے:أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أُنَاسٍ خُصُومَةٌ فَذَكَرَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ:يَا أَبَا سَلَمَةَ اجْتَنِبِ الأَرْضَ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ ظَلَمَ قِيدَ شِبْرٍ مِنَ الأَرْضِ طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2453)۔

عائشہ صدیقہ کی اس روایت سے ایک اہم اجتماعی مسئلہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دو شخص یا دو گروہ کے درمیان مادّ‌ی نزاع پیدا ہو اور دو طرفہ بنیاد پر وہ مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو، ایسی صورت میں دونوں فریقوں میں سے بہتر فریق وہ ہے جو معاملہ کو اللہ پر ڈالتے ہوئے یک طرفہ طور پر اس کو ختم کر لے۔ اجتماعی امن کے قیام کا بلاشبہ یہ سب سے زیادہ اہم اُ‌صول ہے۔

6۔ ابن ابی السائب‌تابعی مدینہ کے ایک واعظ تھے۔ وہ مسجّع دعائیں بنا کر پڑھا کر تے اور وہ ہر وقت لوگوں کے سامنے وعظ کے لیے آمادہ رہتے۔ عائشہ صدیقہ نے اُ‌ن سے خطاب کر کے کہا کہ تم مجھ سے تین باتوں کا عہد کرو، ورنہ میں بز ور تم سے باز پرس کروں گی‌۔ اُ‌نہوں نے کہا کہ اے ام المؤمنین، وہ کیا باتیں ہیں‌۔ عائشہ صدیقہ نے کہا کہ دعاؤ‌ں میں عبارتیں مسجّع نہ کرو کیوں کہ آپ کے اصحاب ایسا نہیں کرتے تھے۔ ہفتہ میں صرف ایک دن وعظ کہا کرو۔ اگر یہ منظور نہ ہو تو دو دن اور اس سے بھی زیادہ چاہو تو تین دن‌۔ لوگوں کو خدا کی کتاب سے اُکتا نہ دو۔ ایسا نہ کیا کرو کہ لوگ جہاں بیٹھے ہیں وہاں آ کر بیٹھ جاؤ اوربات کاٹ کر اپنا وعظ شروع کر دو۔ بلکہ جب ان کی خواہش ہو اور وہ درخواست کریں، تب کہو(مسند احمد، حدیث نمبر25820)۔

عائشہ صدیقہ کی اس روایت سے دین کی اصل روح معلوم ہوتی ہے۔ دین کی اصل روح کے مطابق، دعا قلبی جذبات کا مخلصانہ اظہار ہے جب کہ مسجّع‌دعا میں تصنع اور منافقت کا انداز شامل ہو جا تا ہے۔ اسی طرح وعظ نصیحت کا ایک کلمہ ہے اور خیر خواہانہ نصیحت میں ہمیشہ مدعو کی رعایت شامل رہتی ہے۔ اسی طرح یہ کہ مومن کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی بات کو غور سے سنے اور جو بات کہے اس میں لوگوں کے مزاج کی رعایت ہو۔

7۔ ایک شخص نے عائشہ صدیقہ سے سوال کیا۔ اُس نے کہا کہ اے ام المؤمنین،بعض ‌لوگ ایک رات میں قرآن دو دو، تین تین بار پڑھتے ہیں‌۔ عائشہ صدیقہ نے کہا کہ اُ‌نہوں نے پڑھا مگر اُ‌نہوں نے نہیں پڑھا( أُولَئِكَ قَرَءُوا، وَلَمْ يَقْرَءُوا)۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات نماز میں کھڑے رہتے تھے۔ لیکن سورۂ البقرہ، آل عمران اور سورۂ النساء سے آگے نہیں بڑھتے تھے۔ آپ جب کسی بشارت کی آیت پر پہنچتے تو خدا سے دعا مانگتے اور جب کسی وعید کی آیت پرپہنچتے‌تو پناہ مانگتے (مسند احمد،حدیث نمبر24609 )۔

اس روایت سے دو چیزوں کے بارے میں دین کی روح معلوم ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کی تلاوت کیسے کی جائے۔ اور دوسرے یہ کہ نفل نماز کی اصل صورت کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‌یہ دونوں کام عام طور پر اپنے حجرے میں کرتے تھے۔ اس لحاظ سے اس اہم حقیقت کا علم بقیہ دنیا کو صرف آپ کی رفیقۂ حیات کے ذریعہ ہو سکتا تھا۔ عائشہ صدیقہ نے امت کے لیے یہی کام انجام دیا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کے سلسلہ میں اصلاً جو چیز مطلوب ہے وہ تدبر ہے، نہ کہ وہ چیز جس کو عام طور پر ختم قرآن کہا جاتا ہے۔

8۔ کعبہ پر جب نیا غلاف چڑھا یا جا تا ہے اورپرا نا غلاف اُ‌تار لیا جاتا ہے تو یہ سوال ہوتا ہے کہ پُرا نے غلاف کو کیا کیا جائے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ تعظیم اور ادب کے نقطۂ نظر سے پُرا نے غلاف کو زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ شیبہ بن عثمان نے جو اس زمانہ میں کعبہ کے کلید بردار تھے، عائشہ صدیقہ سے بیان کیا کہ ہم سارے غلاف کو اکٹھا کر کے ایک گہرا کنواں کھود کر اُ‌س میں دفن کر دیتے ہیں‌۔ تا کہ نا پا کی کی حالت میں لوگ اس کو پہن نہ لیں‌۔ عائشہ صدیقہ نے شیبہ سے کہا کہ یہ تو اچھی بات نہیں‌۔ تم برا کرتے ہو۔ جب وہ غلاف کعبہ پر سے اُ‌تر گیا تو وہ عام کپڑا ہے۔ اب اگر کسی نے نا پاکی کی حالت میں اُس کو پہن بھی لیا تو کوئی مضائقہ نہیں‌(إِنَّ ثِيَابَ الْكَعْبَةِ إِذَا نُزِعَتْ مِنْهَا لَمْ يَضُرَّهَا أَنْ يَلْبَسَهَا الْجُنُبُ وَالْحَائِضُ)۔ تم کو چاہیے کہ اس کو بیچ دیا کرو اور اس کے جو دام آئیں وہ غریبوں اور مسافروں کو دے دیا کرو(السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر 9731)۔ عائشہ صدیقہ نے اپنی بصیرت سے یہ سمجھا کہ یہ تعظیم غیر شرعی ہے جس کا خدا اور اس کے رسول نے حکم نہیں دیا۔

عائشہ صدیقہ کی یہ بات دین کی اصل روح کے عین مطابق ہے۔ مگر یہ ایک ایسی نازک بات ہے کہ جس کو کہنے کی جر أ‌ت ایک عام مسلمان نہیں کر سکتا۔ عائشہ صدیقہ کو پیغمبر اسلام کی مسلسل صحبت کے ذریعہ دین کا جو فہم صحیح ملا تھا اُ‌س نے اُ‌ن کے اندر یہ ہمت پیدا کی کہ وہ یقین کے ساتھ اس بات کا اعلان کر سکیں‌۔ اس طرح کی اور بہت سی باتیں عائشہ صدیقہ سے حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں‌۔ عائشہ صدیقہ کی اس قسم کی روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ عائشہ صدیقہ کا ابتدائی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور رفاقت میں آنا دینی‌نقطۂ نظر سے کتنا اہم تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دین کی بہت سی گہری حکمتیں بعد کے لوگوں کے علم ہی میں نہ آتیں‌۔ کیوں کہ وہ پیغمبر سے قریبی استفادہ ہی کے ذریعہ معلوم ہو سکتی تھیں‌۔

عائشہ صدیقہ کی ایک اہم روایت ہے۔ صحیح البخاری میں اس روایت کو اُس کے مختلف پہلوؤ‌ں کی بنا پر کئی باب کے تحت نقل کیا گیا ہے۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ أَيسَرَهُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر3560 )۔ یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دوامر میں سے ایک امر کا انتخاب کر نا ہو تا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب‌فرماتے۔

عائشہ صدیقہ اپنی اس روایت میں پیغمبر اسلام کی جنرل‌پالیسی بیان کر تی ہیں‌۔ وہ یہ کہ عملی زندگی میں پیغمبر اسلام کا مستقل طریقہ یہ تھا کہ جب بھی آپ کے سامنے دو میں سے ایک کے انتخاب کا سوال ہوتا تو آپ ہمیشہ یہ کرتے کہ مشکل‌انتخاب‌(harder option)کو چھوڑ دیتے، اور آسان انتخاب(easier option)کو لے لیتے۔ پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کے بارے میں یہ نکتہ اتنا زیادہ عمیق ہے کہ اُ‌س کو ایک شخص‌لمبی صحبت کے بعد ہی اخذ کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ غیر معمولی ذہانت کا حامل ہو۔

اس معاملہ میں پیغمبر اسلام کا کوئی قول انہی الفاظ میں وارد نہیں ہوا ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اصو لاً وہ آپ کی پوری زندگی پر محیط ہے۔ وہ سیرت رسول کو سمجھنے کے لیے بےحد اہم ہے۔ مثلاً مکہ میں آپ نے توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ اس کی ایک صورت یہ تھی کہ آپ مقدّ‌س کعبہ میں رکھے ہوئے360 بتوں کو توڑنے سے اپنے مشن کا آغاز کر تے۔ مگر آپ نے بتوں کے مسئلہ سے اعراض کرتے ہوئے پُر امن دعوت سے اپنے مشن کا آغاز کیا۔ یہ بلاشبہ‌اختیارأ‌عسر کو لینے کے مقابلہ میں اختیارأ یسر کو لینے کا معاملہ تھا۔

اسی طرح مکی دور کے آخر میں آپ کے سامنے دو میں سے ایک کے انتخاب کا مسئلہ تھا، یا تو مشرکین مکہ سے قتال کریں یا مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں‌۔ آپ نے دوسرے طریقہ کا انتخاب کیا جو بلا شبہ‌اختیارأ‌عسر کے مقابلہ میں اختیاراًا یسر کو لینے کا معاملہ تھا۔ اسی طرح ہجرت کے بعد حدیبیہ کے مقام پر آپ کے لیے دو میں سے ایک کے انتخاب کا سوال تھا۔ یا تو مشرکین کی رکاوٹ کو توڑ کو عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ جانے کی کوشش کریں، یا حدیبیہ سے واپس ہو کر مدینہ آ جائیں‌۔ پہلا طریقہ جنگ کا طریقہ تھا اور دوسرا طریقہ صلح کا طریقہ‌۔ آپ نے اس معاملہ میں صُلح کے طریقہ کو لے لیا جو اختیارِ اعسر کے مقابلہ میں اختیارِ أیسر کو لینے کے ہم معنیٰ تھا۔‌پیغمبر اسلام کی پوری زندگی اسی حکیمانہ تدبیر کی مثال ہے۔ عائشہ صدیقہ  نے پیغمبر اسلام کے ساتھ تبادلۂ خیال اور آپ کی عملی زندگی کے گہرے مطالعہ کے بعد اس راز کو دریافت کیا اور امت کو بتا یا۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کا یہ اہم راز غالباً کسی دوسرے مرد یا عورت کے ذریعہ دنیا کو معلوم نہ ہو سکا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom