دیگر خواتین
میرے تجربہ کے مطابق، عورت دعوتی کام کے لیے ، خاص طور مو جودہ زمانہ میں، بے حد موزوں ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کسی مرد کے سامنے جب کوئی بات کہی جائے تو اس کے اندرفوراً ایگو(ego) کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے اور داعی کے درمیان وہ نفسیات ابھر آتی ہے جس کو اَنا کا ٹکراؤ(ego clash) کہا جاتا ہے۔یہ نفسیات اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ مگر جب دعوت دینے والی شخصیت ایک عورت ہو تو یہ نفسیات بہت کم پیدا ہوتی ہے۔ سننے والے معتدل انداز میں کہی ہوئی بات کوسن لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اس پرغورکرنے کے لیے مجبور پاتے ہیں ۔
اس طرح کی بہت سی خواتین ہیں جو اپنے اپنے انداز میں مختلف ملکوں میں کام کر رہی ہیں اور اپنی کوششوں میں کامیاب ہیں۔ ان میں سے کچھ خواتین کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں ۔ مثلاً کراچی میں ڈاکٹر فرحت نسیم ہاشمی(پیدائش1957)، دبئی میں قدسیہ سید، دہلی میں غزالہ جنگ، بنگلور میں فاطمہ سارہ(پیدائش 1967)، ڈھاکہ میں سیدہ ربابہ عبدالرحمٰن، حیدر آباد میں ذکیہ کوثر،وغیرہ ۔
ڈاکٹر فرحت نسیم ہاشمی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔وہ اُردو کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان سبھی بخوبی جانتی ہیں ۔ انھوں نے کراچی میں الہٰدی انٹرنیشنل کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت وہ خواتین کو باقاعدہ نظام کے تحت اسلامیات کی تعلیم دیتی ہیں ۔ اس ادارہ ہے جو خواتین تربیت پاکرنکلتی ہیں وہ دوبارہ اپنے اپنے مقامات پر اسی ڈھنگ پر تعلیم وتربیت کا کام شروع کر دیتی ہیں ۔ اس طرح الہٰدی انٹرنیشنل کا کام وسیع پیمانہ پر پھیل گیا ہے۔
فرحت نسیم ہاشمی کے اندر تقریر کا بھی اچھا ملکہ ہے۔ ان کے شوہر پروفیسر محمد ادریس نے بتایا کہ فرحت نسیم ہاشمی کے تقریری پروگراموں میں عورتیں اتنی بڑی تعداد میں آتی ہیں جیسے کہ لوگ سیاسی جلسوں میں آیا کرتے ہیں ۔
فرحت نسیم ہاشمی کی تقریریں بہت مقبول ہوئی ہیں ۔ انھوں نے اپنی تقریروں میں درس قرآن کا ایک موثر انداز اختیار کیا ہے۔ اپنے درس میں پہلے وہ قرآنی آیات کے لفظ لفظ کا ترجمہ کرتی ہیں تا کہ سننے والا ایک ایک لفظ کا مطلب سمجھ لے۔ اس کے بعد وہ اپنے سادہ اور دل نشیں انداز میں زیر درس آیتوں کی تشریح کرتی ہیں ۔ سننے والے پورے دھیان کے ساتھ ان کی تقریر کو سنتے ہیں اور اس سے اثر لیتے ہیں ۔ درس قرآن سے متعلق ان تقریروں کے آڈیو ٹیپ تیار کر لیے گئے ہیں ۔ یہ آڈیو ٹیپ بڑے پیمانہ پر پھیل گئے ہیں ۔ ہر جگہ ان کو بڑے شوق کے ساتھ سنا جاتا ہے۔
فرحت نسیم ہاشمی کی تقریر یں سیاست اورٹکر اؤ کی باتوں سے مکمل طور پر خالی ہوتی ہیں۔ یہ ٹیپ خالص تعمیری اور دعوتی انداز کے ہوتے ہیں۔ یہ کہناصحیح ہوگا کہ ان کے ذر یعہ لوگوں میں خاموشی کے ساتھ ایک فکری انقلاب آ رہا ہے۔
دہلی میں میں نے جنوری 2001 سے ایک خاص پروگرام شروع کیا ہے۔ اس کو ہم اسپریچول کلاس(spiritual class)کہتے ہیں ۔ یہ ایک ہفتہ وار کلاس ہے جس کا مقصد روحانیت کو اور اسلام کومثبت انداز میں سمجھنا ہے۔ اس کلاس میں زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان شریک ہوتے ہیں۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ کئی ہندو خواتین بھی پابندی کے ساتھ شرکت کرتی ہیں۔ مثلاً پریا ملک، استتھی ملہوترہ، منجوورمانی، وغیرہ۔
یہ وہ خواتین ہیں جو ہندو خاندان میں پیدا ہوئیں۔ پھر اُنہوں نے انگریزی تعلیم حاصل کی۔ تاہم ان کے اندر سچائی کی تلاش کا جذبہ تھا جو فطری طور پر ہر ایک کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اسی جذبہ کے تحت انہوں نے ہماری کلاس میں آنا شروع کیا۔ چند سال کے تجربہ کے دوران میں نے پایا ہے کہ یہ خواتین نہایت دھیان کے ساتھ میری باتوں کو سنتی ہیں ۔ وہ مردوں سے زیادہ ریسیپٹیو (receptive)ثابت ہوئی ہیں ۔
ہماری کلاس میں آنے سے پہلے ہی خواتین اپنے ماحول کے اثر سے اسلام کے خلاف منفی ذہن رکھتی تھیں ۔ ان کے لیے یہ نا قابلِ تصور تھا کہ اسلام ہی وہ کامل سچائی ہے جسے ان کی فطرت تلاش کر رہی ہے۔ مگر چند سال تک مسلسل ہمارے ہفتہ وار کلاس میں شرکت کے بعد ان کی سوچ بدل گئی۔ ان کے دل نے پوری گہرائی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرلیا کہ اسلام ہی وہ سچائی ہے جس کو ان کی فطرت تلاش کرتی ہے۔
اس تجربے سے مجھے ایک نئی بات معلوم ہوئی جس کو میں نے اس سے پہلے نہ سنا تھا اور نہ پڑھا تھا، وہ یہ کہ انگریزی تعلیم یافتہ نوجوان ،لڑکے اور لڑکیاں دونوں، بظاہر غیرمذہبی معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں’غیر مذہبی ‘ نہیں ہیں۔ زیادہ صحیح لفظوں میں وہ’غیر روایتی ‘ ہیں۔ اُن کے گھر اور ان کے ماحول نے اُن کے اندر اپنے آبائی مذہب کے لیے جوعقیدت پیدا کی تھی، اُس کو جد ید انگریزی تعلیم نے ختم کر دیا، گویا کہ ان کی فطرت کے اوپر جو روایتی پردہ پڑ گیا تھا، وہ ہٹ گیا اور وہ اپنی اصل فطرت کے قریب آگئے ۔
اس تجربے سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ ماڈرن ایجوکیشن کے ادارے اپنی حقیقت کے اعتبار سے’قتل گاہ، نہیں ہیں، بلکہ و تطہیر ذہن کے ادارے ہیں ۔ اِس نتیجے کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دراصل ڈی کنڈیشننگ کے ادارے (institutions of deconditioning) ہیں۔ ذہنی تطہیر کے اِس عمل کی بنا پر ایسے لوگ اِس قابل ہو گئے ہیں کہ وہ کسی بات کو زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ سمجھ سکیں۔
ایک حدیث کے مطابق، ہر پیدا ہونے والا اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اُس کو اس کے والدین اپنے اپنے مذہب میں ڈھال لیتے ہیں: كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385)۔ یہ ایک مذہبی کنڈیشننگ کا معاملہ ہے۔ یہ مذہبی کنڈیشننگ دعوتِ حق کے مشن کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ دعوت کی کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ موجودہ سیکولر تعلیم کا نظام، ڈی کنڈیشننگ کے اِسی عمل کو انجام دے رہا ہے۔ گویا کہ جن نوجوانوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ جد ید تعلیم کے بعد وہ مذہب سے پھر گئے ہیں، برعکس طور پر جدید تعلیم نے اُن کو حقیقی مذہب سے قریب کر دیا ہے۔ یہ ایک نیا امکان ہے جو جد ید تعلیم نے پیدا کیا ہے۔ اس امکان کو استعمال کرنا، دعوتی منصوبہ بندی کا پہلا اصول ہے۔
قرآن میں فطرت کا یہ اصول بتایا گیا ہے کہ نا پسند یدہ صورت حال میں بھی ایک موقع موجود رہتا ہے:عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ(2:216)۔موجودہ تعلیمی نظام کا یہ پہلواِسی فطری قانون کی ایک مثال ہے۔
مذکور ہ خواتین جو ہمارے ہفتہ وار اسپریچول کلاس میں آتی ہیں، اب انہوں نے اپنے اپنے دائرہ میں دعوہ ورک بھی شروع کردیا ہے۔ وہ حسب موقع لوگوں کے سامنے حق کا پیغام پہنچاتی ہیں ۔ اُن میں سے ہر ایک کی بَیگ میں ہمارے یہاں کے چھپے ہوئے پمفلٹ موجود رہتے ہیں۔ یہ خواتین ابتدائی تعارف کے بعد یہ کتابیں لوگوں کو پڑھنے کے لیے دے دیتی ہیں ۔ اسی کے ساتھ وہ اُن کا ٹیلی فون نمبر لے لیتی ہیں اور اپنا ٹیلیفون نمبر اُنہیں دے دیتی ہیں ۔ تاکہ آئندہ دعوتی عمل کا تسلسل جاری رہے۔ میں اپنے تجربہ کے مطابق، یہ کہہ سکتا ہوں کہ عام مردوں کے مقابلہ میں ایک تعلیم یافتہ خاتون شاید زیادہ بہتر دعوتی کام کرسکتی ہے۔
اسلام کے دور اول میں یہ ہوا کہ عورتوں کے مقابلہ میں مردوں نے زیادہ بڑے کارنامے انجام دیے۔ مگر موجودہ حالات کی نسبت سے میرا احساس یہ ہے کہ اسلام کے دور ثانی میں شاید مردوں کے مقابلہ میں عورتیں زیادہ بڑے کارنامے انجام دیں گی۔ اسلام کی دعوت کو آج انقلاب تک پہنچانے کے لیے شاید یہی مقدر ہے کہ عورتیں اس میں بنیادی کردار ادا کریں۔ تاریخ کا اشارہ بظاہر ایساہی بتا رہا ہے۔