نکاح میں ولی کی اہمیت
حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں: لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيّ (مسنداحمد،حدیث نمبر 19518؛سنن الترمذی، حدیث نمبر 1101)۔
اس حدیث میں ولی کے بارے میں جو بات کہی گئی ہے وہ اعتقادی حکم نہیں ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت ایک عملی ضرورت کی ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولی کی موجود گی یا اس کی رضا مندی کے بغیر جو نکاح کیا جائے وہ شرعی اعتبار سے جائز نکاح نہ ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کامیاب نکاح کی ایک عملی شرط یہ ہے کہ وہ ولی کی شرکت کے سا تھ ہو۔ ولی کا مطلب، دوسرے لفظوں میں، خاندانی بزرگ ہے۔ نکاح عام طور پر نو جوان لڑ کے اور نو جوان لڑ کی کے درمیان ہوتا ہے جن کو ابھی زندگی کا عملی تجربہ نہیں ہوا۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ خاندانی بزرگ کا تجربہ اس تعلق میں شامل ہو جو گو یا شادی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
موجودہ زمانہ میں اس معاملہ میں دونوں طرف سے غلطیاں ہوئی ہیں جس نے اس ہدایت کو عملاًغیر مؤثر بنا دیا ہے۔ ایک طرف یہ ہوا کہ ولی یا خاندان کے بزرگ نے اپنے اختیار کو غلط طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔مثلاً وہ لڑکے اور لڑکی کی مرضی جانے بغیر،حتیٰ کہ ان کی مرضی کے خلاف جبری نکاح کروا نے لگے۔ حالاں کہ حدیث میں واضح طور پر اس کو منع کیا گیا ہے۔ حدیث کے مطابق، یہ ضروری ہے کہ ولی حضرات اپنی حیثیت کا استعمال کر تے ہوئے لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی کو بھی ضرور ملحوظ رکھیں۔ وہ لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی کو نظر انداز کر کے ان کا نکاح نہ کر یں۔
و لی حضرات نے، خاص طور پر روایتی معاشرہ میں، مزید یہ بھیانک غلطی کی کہ انھوں نے شادی کے ساتھ جہیز کو ایک لازمی جز ء کے طور پر شامل کر دیا۔ لڑکے کا باپ اپنے لڑکے کی شادی کے لیے لڑکی والوں سے بڑے بڑے جہیز کا مطالبہ کرتا ہے۔ خاندانیسرپرستوں میں یہ مزاج اتنا زیادہ بڑھا کر شادی کو انھوں نے گو یا خرید و فروخت کا ایک معاملہ بنا دیا۔ یہ طریقہ بلا شبہ غیر شرعی ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ آج کل جس قسم کے جہیز کا رواج پڑ گیا ہے وہ ایک تباہ کن سماجی برائی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ نکاح بالکل سادہ طریقہ پر کیا جائے۔ بھاریجہیز، بڑی بڑی مہر، رسوم و رواج کی دھوم کو مطلق طور پر ختم کر دینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں بدعت ہیں، اور بدعتسے کبھیخیر کی امید نہیں کی جا سکتی۔
دوسری طرف آج کل کے لڑکوں اور لڑکیوں میں ایک باغیانہ رجحان اُبھرا ہے۔ وہ ولی یا خاندانی بزرگ کو نظر انداز کر کے آزادانہ طور پر ایک دوسرے سے براہِراست تعلق قائم کرتے ہیں اور پھر ولی کی رضا مندی کے بغیر بطور خود آپس میں شادی کر لیتے ہیں۔ اس طریقہ کو عام طور پر محبت کی شا دی(love marriage)کہا جاتا ہے۔
مگر تجربہ بتا تا ہے کہ محبت کی شادی آ خر کار نفرت کی شادی بن جاتی ہے۔ سروے کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ جدید معاشرہ میں پچاس فیصد سے زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ محبت کی شادیاں آخر کار تفریق اور طلاق پر ختم ہوتی ہیں۔ اور اگر کسی وجہ سے طلاق نہ ہو تب بھی شوہر اور بیوی کے باہمی تعلقات میں اتنا بگاڑ آ جاتا ہے کہ وہ پر سکون زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس تجربہ کی روشنی میں یہ کہنا صحیح ہو گا کہ محبت کی شادی(love marriage)دراصلشہوت کی شادی (lust marriage)تھی جس کو غلط طور پر محبت کی شادی کا خوبصورت نام دے دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اصولاً شادی کا وہی طریقہ درست اور فطری طریقہ ہے جس کو عام طور پر طےکردہ شادی(arranged marriage)کہا جاتا ہے۔ مگر اسلام کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے سلسلہ میں لڑکا اور لڑکی دونوں کی رضا مندی معلوم کرنا ضروری ہے۔ یہ بھی اسلام میں ایک پسندیدہ بات ہے کہ دونوں فریق شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھیں اور بات کر کے پیشگی طور پر ایک دوسرے کا اندازہ کر یں۔ خاندان کے لوگ اگر رشتہ طے کرتے ہوئے اسلام کی اس تعلیم کا لحاظ رکھیں تو اس میں وہ تمام فائدے اپنے آپ شامل ہو جائیں گے جن کو محبت کی شادی کا فائدہ بتایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نکاح کا طریقہ معتدل اور فطری بھی ہے اور اسی کے ساتھ محبت و الی شادی کی خصوصیات بھی اُس کے اندر پوری طرح شامل ہیں۔