عمر نکاح کا مسئلہ

عائشہ صدیقہ کے بارے میں ایک سوال ان کے نکاح کی عمر سے تعلق رکھتا ہے۔ حدیث کی کتابوں میں صحیح روایات سے آیا ہے کہ عائشہ صدیقہ کا نکاح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ میں ہوا۔ اس وقت عائشہ صدیقہ کی عمر صرف چھ سال تھی۔ اس کے بعد مدینہ میں ان کی رخصتی ہوئی اور رخصتی کے وقت عائشہ صد یقہ کی عمر 9 سال تھی( صحيح البخاری،حدیث نمبر5133)۔

موجودہ زمانہ میں اس کے بارےمیں بہت کچھ لکھا گیا ہے ۔ مستشرقین نے عمر کے معاملہ کو لے کرپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ سیرت پر سوالات اٹھائے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ کم سن لڑکی سے نکاح کرنا شریفانہ اخلاق کے خلاف ہے اور یہ کہ اس قسم کا فعل کسی کی پیغمبری کو مشتبہ ثابت کرتا ہے۔

قدیم زمانہ میں بھی یہ سوال پایا جاتا تھا مگر وہ موجودہ شدت کے ساتھ نہ تھا۔ لوگ فقہی بنیاد پر نہ کہ اخلاقی بنیاد پر سوال کرتے تھے کہ کیا یہ جائز ہے کہ ایک زیادہ عمرکا انسان کم عمر غیربالغ بچی سے نکاح کرے۔ اس کا جواب قدیم علماء نے روایتی انداز میں دینے کی کوشش کی ۔ مثلاً ابن حزم نے ابن شبرمہ سے ان کا جواب ان الفاظ میں نقل کیا ہے کہ ان کا خیال تھا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا عائشہ سے چھ سال کی عمر میں نکاح کرنا آپ کی نبوت کے خصائض میں سے تھا:وَزَعَمَ أَنَّ تَزْوِيجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ كَانَ مِنْ خَصَائِصِهِ(فتح الباری، جلد9،صفحہ 190)۔

یہ توجیہ غیرمنطقی ہے۔ کیوں کہ نبی کے خصائص اس کے پیغمبر خدا ہونے کے اعتبار سے ہوتے ہیں، نہ کہ کسی اور اعتبارسے ۔ چنانچہ کسی اور پیغمبر سے اس قسم کا نکاح ثابت نہیں۔

موجودہ زمانہ میں علماء نے مختلف انداز سے اس مسئلے کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر مولانا سید سلیمان ندوی اپنی کتاب میں اس موضوع پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:حضرت عائشہ کا جب نکاح ہوا تھا تو وہ اس وقت چھ برس کی تھیں ۔ اس کم سِنی کی شادی کا اصل منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی تھی۔ ایک تو خودعرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیر معمولی نشوونما کی طبعی صلاحیت ہے، دوسرے عام طور پر بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیر معمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قد و قامت میں بھی بالیدگی کی خاص قابلیت ہوتی ہے۔ اس کو انگریزی میں پری کانشس کہتے ہیں( سید سلیمان ندوی، سیرت عائشہ، مطبوعہ دارالمصنفین، اعظم گڑھ،صفحہ 24 )۔

سید سلیمان ندوی کی کتاب میں اس لفظ کو پری کانشس لکھا گیا ہے ۔ کتاب میں اس کی انگریزی اسپلنگ درج نہیں۔ میرے خیال کے مطابق، غالباً مصنف کی مراد جس انگریزی لفظ سے ہے وہ پری کانشس نہیں ہے بلکہ وہ (precocious) ہے۔ پری کاشش کا مطلب انگریزی زبان میں قبل از وقت نشو ونما ہے:

Precocious: Ripe before the proper or natural time, premature, developed or matured earlier than usual (Webster)

(of a child) having developed particular abilities and ways of behaving at a much younger age than usual, sexually precocious. (Oxford)

اگر چہ حدیث یا تاریخ سے ثابت نہیں کہ عائشہ صدیقہ کا کیس قبل از وقت بالیدگی کا کیس تھا۔ اس معاملہ میں ہی تمام تر ایک مفروضہ ہے۔ تا ہم اصل مسئلہ کی نسبت سے یہ جواب ایک غیر متعلق جواب ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صحیح روایات میں عددی تعین کے ساتھ یہ بات آئی ہے کہ چھ سال میں نکاح اور نو سال میں رخصتی۔ جب کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اس وقت پچاس سال سے ز یا دہ ہو چکی تھی۔ اصل سوال عمر میں اسی ثابت شدہ فرق کے بارے میں ہے، نہ کہ بالیدگی کے بارے میں ۔

اسی طرح کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ:عربوں میں شادی سے پہلے، رشتہ کے متعلق بات طے کر لینے کا رواج تھا۔ یہ وہی چیز تھی جسے ہمارے ہاں نسبت ٹھہرانا یا منگنی کرنا کہتے ہیں۔ قرآن میں صرف نکاح کا ذکر ہے، نسبت اور منگنی کا نہیں ۔ لہٰذا روایات میں جو کہا گیا ہے کہ عائشہ کا نکاح چھ برس کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو برس کی عمر میں، تو وہاں نکاح سے مقصود، عربی معاشرہ کی رسم کے مطابق، رشتہ کی بات چیت کا طے پانا(یا منگنی کرنا) ہے اور رخصتی سے مراد شادی ہے(غلام احمد پرویز، طاہرہ کے نام خطوط، عائشہ کی عمر،صفحہ 1-2)۔

یہ توجیہ بھی درست نہیں ۔ احادیث میں جب نکاح کا لفظ آیا ہے تو اس کو ہمیں نکاح کے معروف معنی ہی میں لینا ہوگا۔ نکاح کے لفظ کو کسی اور معنی میں لینے کے لیے خودمتن حدیث میں اس کا ثبوت ملنا چاہیے جو کہ موجود نہیں۔ مزید یہ کہ اس توجیہ سے اصل اعتراض ختم نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ نکاح کی عمر خواہ چھ سال مانی جائے یا نو سال، دونوں حالتوں میں وہ کم عمری ہی کی شادی ہے ۔ پھر اس توجیہ کا کیا فائدہ۔

اسی طرح کچھ لوگ ایک اور نکتہ بیان کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں:عائشہ صدیقہ نے صحابہ کی مرویات پر تنقید کی اور کہا:’’میں تو نہیں کہتی کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں لیکن کان سننے میں غلطی کر جاتے ہیں‘‘۔ بخاری و مسلم میں اس قسم کی متعد د تنقیدات موجود ہیں ۔ اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ بعض اوقات راوی انتہائی معتبر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی بیان کرد ہ روایت غلط ہو جاتی ہے۔

کبھی اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ راوی نے ادھوری بات سنی ہوتی ہے۔ کبھی راوی مفہوم غلط سمجھ بیٹھتا ہے، کبھی اس سے بھول واقع ہوتی ہے۔ ہم بھی بقول ام المومنین یہ کہتے ہیں کہ راوی سے سننے میں غلطی ہوئی ۔ جملہ بولا گیا تھا تسع عشر(انیس) راوی نے صرف تسع (نو) کا لفظ سنا اور اس طرح اس داستان نے جنم لیا کہ بعض اوقات کا ن سننے میں غلطی کر تے ہیں ۔ (حبیب الرحمن صد یقی کاندھلوی ،عمر عائشہ، مطبوعہ کراچی، اکتوبر 1994ء صفحہ 8-9)

یہ قیاس بھی درست نہیں ۔ عائشہ صد یقہ کامذکورہ اصول و ہاں قابل انطباق ہوگا جہاں روایت کرنے والا اور روایت کی تردید کرنے والا دونوں یکساں طور پر سامع کی حیثیت رکھتے ہوں۔ ایک سامع دوسرے سامع کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ اس نے سننے میں غلطی کی، میرے سننے کے مطابق، اصل بات یہ تھی۔ مگر ایک غیر سامع جو بات کو سننے میں شریک نہ ہو وہ مذکورہ قیاس کی بنیاد پر تر دید کا حق نہیں رکھتا۔ اس قسم کا استدلال سراسر غیر معقول ہے۔ اگر اس توسیعی قیاس کو ایک درست اصول مان لیا جائے تو کوئی شخص ایسے قیاسات پیش کر سکتا ہے جو پورے دین کا حُلیہ بگاڑ دیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں بحث کا نقطۂ آغاز ہی نہیں ہے کہ ایک کم عمر لڑکی کی شادی زیادہ عمر کے انسان سے کیوں ہوئی ۔ بلکہ اس معاملہ میں بحث کا صحیح نقطۂ آغاز یہ ہے کہ یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ عائشہ صد یقہ تاریخ کی ایک استثنائی شخصیت کیوں بن گئیں ۔ اس معاملہ میں پہلے واقعہ کو دوسرے واقعہ کے تابع کر کے دیکھا جائے گا، نہ کہ اس کے برعکس۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پوری مسلم تاریخ میں عائشہ صد یقہ اپنے رول کے اعتبار سے ایک منفرد اور ممتاز شخصیت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ دینِ اسلام کی روح کو اُنھوں نے جتنی گہرائی کے ساتھ سمجھا اُتنی گہرائی کے ساتھ کسی بھی دوسرے مرد یا عورت نے نہیں سمجھا۔ دین کے نازک پہلوؤں کی تشریح میں وہ جس یقین کے ساتھ ہوتی ہیں اس یقین کے ساتھ کوئی بھی دوسرا بول نہ سکا۔ انھوں نے دین کی حکمتوں کی جس طرح وضاحت کی ہے اُس طرح وضاحت کرنے والا کوئی بھی دوسرا شخص نظر نہیں آتا، نہ د و رصحابہ میں اور نہ دور صحابہ کے بعد ۔ اسی سوال کے جواب میں اصل مسئلہ کا جواب چھپا ہوا ہے۔

اصل یہ ہے کہ دین میں سب سے بڑی چیز معرفت ہے۔ یہ معرفت پیغمبر کو کامل درجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ پیغمبر کو یہ معرفت جبرئیل کے واسطہ سے براہ راست خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد یہ معرفت کامل کس طرح کسی کو ملے ۔ اسی معرفتِ کامل کا مہبط بننے کے لیے عائشہ صدیقہ کو چنا گیا۔ عملی طور پر اس کی صرف ایک صورت تھی، اور وہ یہ کہ عائشہ کو ابتدائی عمر ہی میں پیغمبر کی صحبت کا موقع دے دیا جائے ۔ اس معرفت کامل کے لیے صحبت کامل در کارتھی ۔ اور کسی انسان کے ساتھ محبتِ کامل کا موقع صرف اس کی بیوی کومل سکتا ہے، کسی اور کونہیں۔

نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بچہ اپنی ابتدائی عمر میں بے حد متجسس (inquisitive)ہوتا ہے۔ وہ اپنے با ہر کی باتوں کو جاننے کے لیے بے حد شائق(eager to learn)ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ بچہ اپنی ابتدائی عمر میں بہت تیز ذہن(sharp mind)ہوتا ہے۔ وہ نئی نئی چیزوں کو فی الفور پکڑتا ہے۔ مطالعہ سے بھی ثابت ہوا ہے کہ ابتدائی عمر میں ہر مرد اور ہر عورت کا حافظہ بہت قوی ہوتا ہے۔ ابتدائی عمر میں جو باتیں انسان کے علم میں آجائیں وہ پھر کبھی اس کو نہیں بھولتیں ۔ ابتدائی عمر سے بچوں کی اسکولنگ شروع کرنے کا نظر یہ اسی خاص اُصول پر قائم ہے۔

عائشہ صد یقہ نہایت ذہین خاتون تھیں ۔ اُن کو بے حد اَخّاذطبیعت ملی تھی ۔ اس لیے خدا کی منشا ہوئی کہ ان کو کم عمری میں پیغمبر کی مستقل صحبت میں دے دیا جائے ۔ اور اسی مستقل صحبت کی عملی صورت صرف یہ تھی کہ وہ آپ کی زوجہ کی حیثیت سے آپ کی شریک زندگی بن جائیں ۔ اسی خاص منصوبہ کے تحت عائشہ صدیقہ کو کم عمری میں پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں دے دیا گیا۔

یہ نکاح بظاہر ایک غیر رواجی نکاح تھا۔ وہ مروجہ طریقہ کے خلاف تھا۔ اس بنا پر عین ممکن تھا کہ پیغمبر اسلام اس کو قبول نہ کرتے۔ حتی کہ یہ امکان تھا کہ وہ اس رشتہ کو قابل غور بھی نہ سمجھیں۔ غالباً اسی نزاکت کی بنا پر یہ ہوا کہ خدا کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اس غیر معمولی رشتہ کے بارے میں اس نے آپ کو پیشگی خبر دی تا کہ آپ کو اس معاملہ میں تر دّد نہ رہے۔ یہ تقریباً ویسا ہی ایک معاملہ تھا جو اس سے پہلے مریم کے ساتھ پیش آچکا تھا۔ مریم کو اس پر سخت تر دّد ہوسکتا تھا کہ ان کے یہاں بغیر باپ کے ایک بچہ پیدا ہو۔ اس لیے اللہ تعالی نے ان کے پاس پیشگی طور پر ایک فرشتہ بھیجا۔ اس نے انسان کی صورت اختیار کر کے مر یم کو اس معاملہ کی خبر دی ۔ اس کا ذکر قرآن میں واضح الفاظ میں آیا ہے(مریم،19: 17)۔

اس رشتہ کے بارے میں فر شتہ کا پیشگی خبر دیناصحیح روایات سے ثابت ہے۔ چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ عا ئشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا کہ مجھ کو خواب میں تمہیں دکھایا گیا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں تم کو لے کر آتا ہے ۔ فرشتہ نے کہا کہ یہ تمہاری بیوی ہے۔ میں نے تمھارے چہرےسے کپڑا اٹھایا۔ پھر دیکھا کہ تم ہو۔ میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو یہ پورا ہو کر ر ہے گا:

 قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:رَأَيْتُكِ فِي المَنَامِ يَجِيءُ بِكِ المَلَكُ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ، فَقَالَ لِي: هَذِهِ امْرَأَتُكَ، فَكَشَفْتُ عَنْ وَجْهِكِ الثَّوْبَ فَإِذَا أَنْتِ هِيَ، فَقُلْتُ: إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللهِ يُمْضِهِ (صحيح البخاری، حديث نمبر 5125)۔

عائشہ صد یقہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیارہ سال تک رہیں ۔ چوں کہ اُن کی عمر آپ کے مقابلہ میں بہت کم تھی، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ تقریباً پچاس سال تک زندہ رہیں ۔ پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ تقریبا نصف صدی تک علم نبوت کی اشاعت کا ذریعہ بنی رہیں۔ واقعات بتاتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ نے دین کی ایسی گہری حکمتیں بتائیں جو کسی دوسرے صحابی کے ذریعہ امت کو نہیں مل سکیں۔ مزید یہ کہ پیغمبر کی مسلسل صحبت سے ان کو اپنے تصورات دین کی صداقت پر غیر معمولی یقین حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نازک دینی مسائل میں جس قطعیت کے ساتھ بولتی ر ہیں اس طرح بولنے کی جرأت کوئی دوسرانہ پہلے کر سکا اور نہ اب کرسکتا ہے۔

مثلاً ایسا ہوتا ہے کہ لوگ عقیدت مندی کے تحت اس کی رائے بنا لیتے ہیں جو حقیقتِ واقعہ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ پھر جب ایسی باتیں پھیل جائیں تو عام آدمی کو اس کی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اس کی تردید کرے۔ ایسے موقع پر غیر معمولی بصیرت درکار ہوتی ہے۔ غیر معمولی بصیرت کا حامل انسان ہی ایسے موقع پر کوئی قطعی بات کہنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ عائشہ صدیقہ کو پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل صحبت سے یہی بصیرت ملی تھی ۔ جس کی بناپروہ کامل یقین کے ساتھ کام کرسکتی تھیں ۔ مثلاً وفاتِ رسول کے بعد دورِتابعین میں یہ کہا جانے لگا کہ پیغمبراسلام‌صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ عائشہ صدیقہ نے اس کوسنا تو وہ غضبناک ہوگئیں۔ انہوں نے کہا کہ:مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ۔ جوتم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو دیکھاوہ جھوٹ کہتا ہے)(صحیح‌البخاری،حدیث نمبر4855 )۔

اسی طرح وفات رسول کے بعد جو زمانہ آیا اس زمانہ میں ختم قرآن کا طریقہ داری ہوگیا۔ لوگ قرآن میں تدبّر کے بجائے اس کو اہمیت دینے لگے کہ لفظی تلاوت کے ذریعہ بار بار قرآن کو ختم کیا جاتا ہے۔ اس ختم پر بڑے بڑے ثواب بتائے جانے لگے۔ یہ بات عائشہ صدیقہ کو معلوم ہوئی ۔ اُن کو بتایا گیا کہ فلاں لوگ ایک دن کے اندر اتنی بار قرآن ختم کر لیتے ہیں۔ عائشہ صدیقہ نے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ:أُولَئِكَ قَرَءُوا، وَلَمْ يَقْرَءُوا(مسند احمد ، حدیث نمبر24609)۔ یعنی اُنھوں نے پڑھا،مگر اُنھوں نے نہیں پڑھا۔

زوجۂ رسول ہونے کی وجہ سے لوگ اس طرح کی نازک چیزوں میں عائشہ صدیقہ کی بات پر یقین کر سکتے ہیں ۔ کوئی دوسر اشخص ایسا بیان دے تو لوگوں کے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہوجائے گا۔

ایک روایت ہے جس میں یوسف بن ماہک کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ کے پاس تھا۔ اتنے میں ان کے پاس ایک عراقی شخص آیا۔ اس نے کہا کہ کون سا کفن بہتر ہے۔ عائشہ صدیقہ  نے جواب دیا کہ تمہارا برا ہو، اس میں تمہارا کیا نقصان ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اے ام المومنین، مجھ کو اپنا مصحف(قرآن)د کھایئے۔ انھوں نے کہا کہ کس لیے ۔ اس نے کہا تا کہ میں اس کے مطابق ایک قرآن تیار کروں، کیوں کہ وہ مختلف ترتیب سے پڑھا جارہا ہے۔ عائشہ نے کہا کہ تمہارا اس میں کیانقصان ہے، جس طرح تم پہلے پڑھ رہے تھے، وہی پڑھو:

وَأَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكٍ، قَالَ:إِنِّي عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، إِذْ جَاءَهَا عِرَاقِيٌّ، فَقَالَ:أَيُّ الكَفَنِ  خَيْرٌ؟ قَالَتْ:وَيْحَكَ، وَمَا يَضُرُّكَ؟ قَالَ:يَا أُمَّ المُؤْمِنِينَ، أَرِينِي مُصْحَفَكِ؟ قَالَتْ :لِمَ؟ قَالَ:لَعَلِّي أُوَلِّفُ القُرْآنَ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ يُقْرَأُ غَيْرَ مُؤَلَّفٍ، قَالَتْ: وَمَا يَضُرُّكَ أَيَّهُ قَرَأْتَ قَبْلُ؟ (صحیح البخاری، حدیث نمبر4993)۔

عائشہ صدیقہ نے اس گفتگو میں جس یقین اور وضاحت کے ساتھ روح اسلام کی نمائندگی کی ہے وہ بے حد اہم ہے۔ اس یقین اور وضاحت کے ساتھ بولنا ان کے لیے صرف اس بنا پر ممکن ہوسکا کہ وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی قریبی صحبت سے اسلام کی روح کو بھر پور طور پر سمجھ چکی تھیں ۔ وہ کسی ادنیٰ شبہ کے بغیر جانتی تھیں کہ اس معاملہ میں اسلام کا تقاضا کیا ہے۔

عائشہ صدیقہ کی فہم و بصیرت سے متعلق اس طرح کی کچھ اور مثالیں اس کتاب کے دوسرے ابواب میں ملیں گی۔ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عائشہ کی نکاح کے بارے میں عمر کا مسئلہ صرف ایک اضافی مسئلہ ہے۔ اس معاملہ میں اصل فیصلہ کن بات یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کی جس مصلحت کے تحت یہ نکاح ہوا اس کا کوئی بھی بدل سِرے سے موجود نہ تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom