19۔ اشاعت فاحشہ نہیں
اسلام کے مدنی دور میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ بنت ابی بکر پر ایک جھوٹا اخلاقی الزام لگا یا گیا۔ اس الزام کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا۔ مگر مدینہ کے بعض افراد نے جب اس کا تذکرہ کیا تو لوگ بے تکلف اس کا چرچا کرنے لگے۔ جو سنتا وہ اُس کو دوسرے سے بیان کرتا۔ اس پر قرآن میں مختلف احکام اُترے۔ ان میں سے ایک حکم یہ تھا:
جب تم لوگوں نے اس کو سُناتو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے ایک دوسرے کی بابت نیک گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہ کہا کہ یہ کھلا ہوا بہتان ہے۔ یہ لوگ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ پس جب وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ اور اگر تم لوگوں پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو جن با توں میں تم پڑ گئے تھے اس کے باعث تم پر کوئی بڑی آفت آ جا تی۔ جب کہ تم اُس کو اپنی زبانوں سے نقل کر رہے تھے۔ اور اپنے منھ سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا۔ اور تم اس کو ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے۔ حالاں کہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بھاری بات ہے۔ اور جب تم نے اس کو سنا تو یوں کیوں نہ کہا کہ ہم کو زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات منھ سے نکا لیں۔ معاذ اللہ، یہ بہت بڑابہتان ہے(24:12-16)۔
قرآن کے اس بیان سے ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ اجتماعی زندگی میں جب بھی ایسا ہو کہ کسی مرد یا عورت کے بارے میں کوئی غیراخلاقی بات کہی جائے تو ہر گز ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ اُس کو صرف سن کر مان لیں اور پھر اُس کا تذکرہ کر نے لگیں۔سُنیہوئی بات کا بلا ثبوت تذکرہ کر ناخود تذکرہ کر نے والے کو خدا کی نظر میں مجرم ثابت کر تا ہے۔ اس کے بجائے سننے والے کو یہ کرنا چایئے کہ جب کہنے والے نے اپنی بات کے ساتھ اس کا پختہ ثبوت نہ دیا ہو تو صرف سُن کر یہ کہہ دیاجائے کہ یہ جھوٹی بات ہے۔
اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں اچھی بات کہے تو اس کے لیے اُسے کوئی ثبوت یا گواہ پیش کر نے کی ضرورت نہیں۔ مگر جب وہ کسی کے بارے میں ایک اخلاقی برائی کا ذکر کرے تو اس کو لازماًچارگواہ پیشں کرنا ہو گا، ایسے چار گواہ جنہوں نے براہ راست طور پر مذکورہ اخلاقی برائی کو خود دیکھا اور سنا ہو۔ جو لوگ کسی کے بارے میں اس قسم کی اخلاقی برائی کا چرچا کریں اور اُس کے ثبوت میں چار چشم دید گواہ پیش نہ کر سکیں تو وہ سخت مجرم قرار پائیں گے اور اسلامی ریاست میں اُنہیںکوڑا مار نے کی سزا دی جائے گی۔