38۔ ا حوالِ قیامت
قرآن میں ارشاد ہوا ہے:جس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے، اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے، اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایسا فکر لگا ہو گا جو اس کو کسی اور طرف متوجہ نہ ہونے دے گا۔ کچھ چہرے اس دن روشن ہوں گے، ہنستے ہوئے، خوشی کرتے ہوئے۔ اور کچھ چہروں پر اس دن خاک اڑ رہی ہو گی، ان پر سیاہی چھائی ہوئی ہو گی۔ یہی لوگ منکر ہیں، ڈھیٹ ہیں(80:34-42)۔
قرآن کی ان آیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ موت کے بعد قیامت کا جو دن آنے والا ہے وہ کتنا زیادہ ہولناک ہو گا۔ اُس دن دنیا کی محبتیں اور دنیا کی دشمنیاں سب ختم ہو جائیں گی۔ ہر ایک کو صرف اپنی فکر ہو گی۔ ہر مرد اور عورت کا یہ حال ہو گا کہ وہ سارے دنیوی تعلقات کو بھول کر صرف خدا کی طرف دیکھ رہا ہو گا۔ وہ صرف ایک خدا سے رحمت کا امیدوار بن جائے گا۔
ہر مرد اور عورت کو چاہیے کہ وہ زندگی کی اس نوعیت کو سمجھے۔ جب کوئی نا موافق صورت حال اُس کے سامنے آئے تو وہ اس کا سامنا اس احساس کے ساتھ کرے کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ خدا مجھ کو ان حالات میں ڈال کر میرا امتحان لینا چاہتا ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جو کسی عورت یا مرد کو موجودہ دنیا میں اعتدال پر قائم رکھ سکتی ہے۔ یہی سوچ اس بات کی ضامن ہے کہ اُس کی سوچصحیحسوچہو اور اُس کا عمل صحیح عمل۔