3۔ طلاق کا شرعی طریقہ
اسلامی شریعت میں عورت اور مرد کے درمیان اصل مطلوب چیز نکاح ہے۔ طلاق کی حیثیت صرف ایک انتہائی استثنائی ضرورت کی ہے، نہ کہ عمومی حکم کی۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر 2178)۔ یعنی،اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ حلال چیز طلاق ہے۔
قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہو کہ وہ طلاق لے کرجدا ہونا چاہیں تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فوری طور پر طلاق دے کر دونوں ایک دوسرے سے مستقل طور پر جدا ہو جائیں۔ بلکہ شریعت کے مطابق، اس کا ایک مقرر طریقہ (prescribed method)ہے۔ یہ طریقہ قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے:
طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو قاعدہ کے مطابق رکھ لینا ہے یا خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کردینا(2:229)۔
زوجین کے درمیان طلاق کا خیال عام طور پر غصہ کی حالت میں آتا ہے۔ شوہر کو عورت کی کسی بات پر ناراضگی ہوئی۔ پھر دونوں میں تکرار ہوئی جو شدید غصہ تک پہنچ گئی۔ اس طرح غصہ کی حالت میں انتہائی اقدام کے طور پر شوہر کے منھ سے نکل جاتا ہے کہ میں نے تم کو طلاق دیا۔ مگر شریعت کے مطابق،طلاق کی تکمیلکے لیے تین بار طلاق ضروری ہے۔ اور یہ تین طلاق تین مہینہ میں الگ الگ دیا جا نا چاہیے۔ یعنی دو مہینہ میں ایک ایک بار طلاق اور پھر تیسرے مہینہ میں یا تو فائنل طلاق یا رجوع۔ یہ طریقہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ غصہ ہمیشہ وقتی ہیجان کے تحت ہوتا ہے۔ اس لیے جب وقت گذر تا ہے تو غصہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور اسی کے ساتھ طلاق کا خیال بھی۔ گو یا طلاق کے مذکورہ طریقہ کا مطلب طلاق پر روک قائم کرنا ہے، نہ کہ طلاق کو حتمی حیثیت دینا۔
کچھ مسلمان ایسا کرتے ہیں کہ وہ ایک ہی مجلس میں اور ایک ہی بار تین طلاق دے دیتے ہیں۔ یہ بلاشبہشرعی قانون کا غلط استعمال(misuse)ہے۔ چنانچہ خلیفۂثانی عمرفاروق کے زمانہ میں جب کچھ لوگوں نے ایک مجلس میں تین طلاق دی تو حضرت عمر کے حکم سے اُن کی پیٹھ پر کوڑے بر سائے گئے(سنن سعید بن منصور، حدیث نمبر 1073)۔