8۔ سب سے بہتر خزانہ
عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ آدمی کے لیے بہتر جمع کر نے والا مال کیا ہے۔ نیک عورت کو جب وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کر دے۔ اور جب وہ اس کو حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے۔ اور جب وہ موجود نہ ہو تو وہ اس کی حفاظت کرے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ مَا يُكْنَزُ ؟ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ إِذَا نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ،وَإِذَا أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، وَإِذَا غَابَ عَنْهَا حَفِظَتْهُ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 1487)۔
اس حدیث میں عورت کی جو صفات بتائی گئی ہیں وہ کوئی سادہ صفات نہیں ہیں۔ اس حدیث کو پوری طرح اُس وقت سمجھا جا سکتا ہے جب کہ اُس کواسں کے ظاہری الفاظ سے اوپر اُٹھ کر دیکھاجائے۔ جب کہ اُس کو زندگی کے زیادہ گہرے پہلوؤں کے ساتھ جوڑ کر سمجھا جائے۔
مرد کے لیے عورت صرف اس کی گھریلوساتھی نہیں ہے بلکہ وہ أں کے لیے سب سے بڑے خزانہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان ایک سوچنے والی مخلوق ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ کوئی ہو جو سوچنے کے عمل میں اُس کے ساتھ شیئر(share)کر سکے۔ جو پورے معنوں میں اس کا فکری رفیق(intellectual partner)بن جائے۔ عورت کسی مرد کی اسی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ وہ اُس کی ایک قابل اعتماد ذہنی رفیق ہے۔ کسی مرد کی بیوی ہی اس کی وہ ساتھی ہے جو اُس کو ہر صبح و شام حاصل رہتی ہے۔
مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی رفیقۂ حیات کو اس اعتبار سے تیار کرے۔ تعلیم و تربیت کے ذریعہ وہ عورت کو اس قابل بنائے کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے شوہر کی فکری رفیق (intellectual partner)بن جائے۔ اس قسم کی ذہنی رفاقت کے جو فائدے ہیں اُنہی میں سے کچھ فائدوں کا ذکر علامتی طور پر مذکورہ حدیث میں کیا گیا ہے۔