سابعہ خاتون
اس سلسلہ میں دوسرا قابلِ ذکر نام میری اہلیہ سابعہ خاتون کا ہے۔ اب ان کی عمر76 سال ہو چکی ہے ۔ ان کے ساتھ میری شادی 1942 میں ہوئی ۔ یہ شادی میرے چچاز اد بھائی اقبال احمد سہیل (وفات 1955)نےکرائی تھی ۔عجیب اتفاق ہے کہ جس سال میری شادی ہوئی عین اسی سال میری زندگی میں ایک طوفانی دور شروع ہوگیا۔ یہ تلاش حقیقت کا دور تھا۔ میں حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا ۔ غیر منصوبہ بند انداز میں اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔ تلاش کا یہ دور تقریباً پانچ سال تک جاری رہا ۔ یہاں تک کہ 1948 میں میں نے اسلام کو ایک کامل صداقت کے طور پر ازسرِنو دریافت کیا۔
تاہم یہ دریافت میری اہلیہ کے لیے کوئی خوش آئند پیغام نہ تھی ۔ میں دوبارہ ایک طویل سرگرمی میں مشغول ہوگیا۔یعنی میں نے جس سچائی کو پایا ہے اس سچائی کو تمام انسانوں تک پہنچاؤں ۔ اس سچائی سے خدا کے تمام بندوں کو باخبر کروں ۔ گویا کہ پہلے اگر سچائی کی تلاش نے مجھ کو سراسیمہ کر رکھا تھا تو اب سچائی کو عام کرنے کے جذ بہ نے مجھ کو مزید اضافہ کے ساتھ سراسیمگی میں مبتلا کر دیا۔ میری سرگرمیوں کا مرکز عام انسان ہو گیا، نہ کہ محدود طور پر میرے اہل وعیال۔
یہاں دوبارہ ایک’’حادثہ‘‘پیش آیا۔ جب میں دعوت وتبلیغ کے کام میں سرگرم ہوا تو جلد ہی میں نے دریافت کیا کہ مدرسہ کی روایتی تعلیم نے مجھ کو جو صلاحیت دی ہے اس کے ذریعہ میں صرف ’’عوام ‘‘کے درمیان اپنا دعوتی کام کر سکتا ہوں۔ جہاں تک’’خواص ‘‘کا تعلق ہے، وہ ایک غیر روایتی کام ہے اور میں ابھی اس کے لیے نا اہل (incompetent) ہوں۔ خواص میں کام کرنے کے لیےمجھے مزید استعداد درکار ہے۔ اور وہ ہے، انگریزی زبان میں بخوبی لیاقت پیدا کرنا اور جدید افکار کا گہرا مطالعہ کرنا۔
اس احساس نے مجھے دوبارہ ایک نئے مشکل تر کام میں لگا دیا۔ میں انگریزی زبان اور انگریزی علوم کے حصول میں دیوانہ وار مصروف ہو گیا۔ اس زمانہ میں میرا حال یہ تھا کہ سڑک پر چلتے ہوئے میں اپنے ہاتھ میں کوئی انگریزی کتاب لیے رہتا تھا اور ماحول سے بے خبر ہو کر چلتے ہوئے اس کو پڑھتا رہتا تھا۔ روڈ ریڈنگ کی یہ دیوانگی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ میری ماں اور میرے بڑے بھائی یہ کہاکرتے تھے کہ کسی نہ کسی دن یہ شخص سڑک پر چلتے ہوئے کسی گاڑی سے ٹکرا جائے گا اور اس طرح وہ اپنا خاتمہ کر لے گا۔
اس طرح شادی کے بعد ہی سے میرا یہ حال ہوا کہ میں اپنی اہلیہ کے لیے کچھ بھی نہ کر سکا۔ یہاں تک کہ میرے بچے پیدا ہو گئے اور کسی قسم کی معاشی بنیاد ابھی تک میں نے نہیں بنائی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانہ میں ایک دن میں باہر سے چل کر گھر کے اندر آیا ۔ اس وقت میری اہلیہ میرے بڑے بھائی کے گھر(باقی منزل)کے ایک کمرہ میں رہتی تھیں ۔ اعظم گڑھ میں میری اہلیہ کی ایک سہیلی تھیں جن کا نام رضیہ بیگم تھا۔ میں کمرہ میں داخل ہوا تو میری اہلیہ نے کہا کہ رضیہ کہتی ہیں کہ تم لوگ اس طرح کب تک رہو گے ۔ تمہارے بچوں کا معاشی مستقبل کیا ہوگا ۔ میری زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے :رضیہ سے کہہ دو کہ یہ کشتی اپنے تمام سواروں سمیت بس اللہ کے حوالے ہے۔
میری زندگی کا جو اسٹائل بنا، اس کی سب سے زیادہ قیمت میری اہلیہ کو دینی پڑی ۔ شادی شدہ زندگی کبھی میری دلچسپیوں کا مرکز نہ بن سکی ۔ مجھے ہمیشہ کچھ اور ہی چیزوں کی دھن لگی رہتی تھی ۔ میر ا ذہنی ارتکاز(concentration)مکمل طور پر کسی اور طرف تھا۔ اس دھن کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں اس مجتہدانہ مشن کو لے کر کھڑا ہو سکا جس کا کوئی نمونہ میرے آس پاس موجود نہ تھا۔
اس کا پس منظر یہ ہے کہ یوروپی کولونیلزم سے لے کر امریکا کے نیو ورلڈ آرڈر تک مسلمان جس ناموافق صورت حال سے دوچار ہوئے، اس نے اس مدت میں پیدا ہونے والے تمام علماء اور مصلحین کو منفی طرز فکر میں مبتلا کر دیا۔ ایسے حالات میں مجھے اسلام کے اس مثبت تصور کو دوبارہ دریافت کرنا تھا،جوتقریباً تین سو سال سے منفی تقریروں اور تحریروں کے انبار میں چھپ گیا تھا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی سے لے کر ڈاکٹر یوسف القرضاوی تک تمام علماء جہاد کو قتال کے ہم معنیٰ بتاتے رہےہیں ۔ ایسی حالت میں مجھے اس مشکل کام کو کرنا پڑا کہ میں جہاد فی سبیل اللہ کو پرامن دعوتی جد و جہد کے مفہوم میں دریافت کروں ۔ تین سو سال کے حالات نے تمام علماء اور رہنماؤں کو غیر مسلموں کے خلاف نفرت میں مبتلا کردیا تھا۔ اب مجھے یہ کرنا پڑا کہ نفرت کے سمندر میں غوطہ لگا کر محبت انسانی کے گم شدہ موتیوں کو دریافت کروں ۔ جدید سائنس کے ذریعہ موجودہ زمانہ میں نیا طاقت ور علم کلام وجود میں آیا تھا مگر اہل مغرب سے نفرت کے نتیجے میں ہمارے علماء کے لیے وہ اب تک غیر در یافت شده بنا ہوا تھا۔ مجھے یہ کرنا تھا کہ میں اس غیر دریافت شدہ متاع کو دریافت کر کے اس کو استعمال کروں ۔ مجھے دنیا میں بے آمیز دعوت کا کام کرنا تھا۔ یہ کام اتنا نازک ہے کہ اس میں اونیٰ جھکا ؤ(tilt) بھی داعی کو دو ہرا عذاب کے رسک میں مبتلا کر دیتا ہے (الاسراء،17:74)۔ ایسی حالت میں میرے لیے بیوی بچوں کے بارے میں سوچنے کا موقع بھی نہیں تھا، چہ جائیکہ میں اُن کے لیے عملاً کچھ کروں ۔
اس طویل اور جاں گسل منصوبہ کو جاری رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ہو جو اس کی قیمت ادا کرے۔ میری اہلیہ نے یہی قیمت ادا کی ۔ انہوں نے نا قابل برداشت کو برداشت کیا۔ وہ پوری عمرصبر کے اصول پر قائم رہیں، اور کبھی شکایت کا ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا ۔ حالاں کہ میرا حال یہ تھا کہ تقریبا ً پوری عمر میں نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ شاید قارئین کو یقین نہیں آئے گا کہ میں نے 1942 سے لے کر اب تک اپنی اہلیہ کے لیے ایک جوڑا کپڑا بھی نہیں بنایا۔کبھی ان کے لیے جوتا یاچپل نہیں خریدا۔ ان کی مادی ضرورتوں کے بارے میں مکمل طور پر غیر جانب دار بنارہا۔ کسی صاحب مشن کے لیے اس قسم کا یکطرفہ تعاون بہت قیمتی ہے، اور ایسا تعاون کسی کو صرف ایک عورت ہی سے مل سکتا ہے۔
میری اہلیہ کامل صبر کا ثبوت دیتے ہوئے میرے لیے ایک نو پرابلم خاتون بن گئیں۔ اگر ایسانہ ہوتا تو یقینی تھا کہ میرا سارا منصو بہ ناتمام رہ جاتا۔ اس کے بعد دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی ایک حیوان کا سب بن جاتا ۔ اور پھر اسی حالت میں ایک ایسی دنیا میں چلا جاتا جہاں سے دوبارہ واپس آنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔