20۔ پردہ کا قانون
قرآن میں خواتین کے لیے پردہ کا قانون بتا تے ہوئے ارشاد ہوا ہے:اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچیرکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔ مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہیں۔ اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے مملوک پریا زیردست مردوں پر جو کچھ غرض نہیں رکھتے۔ یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے ابھی ناواقف ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زور سے نہ ماریں کہ اُن کی مخفی زینت معلوم ہو جائے اور اے ایمان والو،تم سب مل کر اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ(24:31)۔
قرآن کی ان آیتوں میں خواتین کے پر دہ کا وہ حکم بتایا گیا ہے، جس کوسَترکہا جاتا ہے۔ یعنی اپنے جسم کے کس حصہ کا چھپانا ضروری ہے اور کس حصہ کو کھولنے کی اجازت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کا پورا بدن ڈھیلے اور سادہ کپڑوں سے ملبوس ہو نا چاہیے۔ تا ہم اس کلیہمیں بر بنائے ضرورت ایک استثناءہے۔ یہ استثناء آیت کے لفظ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے)سے نکلتا ہے۔ سو رہ النور کی اس آیت کی تفسیر کر تے ہوئے مولاناشبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
’’حدیث و آثار سے ثابت ہو تا ہے کہ چہرہ اور کفین (ہتھیلیاں) إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا میں داخل ہیں۔ کیوں کہ بہت سی ضروریات دینی و دنیوی اُن کے کھلارکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اگر ان کے چھپانے کامطلقاًحکم دیا جائے تو عورتوں کے لیے کاروبار میں سخت تنگیاور دشواری پیش آئے گی۔ آگے فقہاءنےقدمین (دونوں پاؤں)کو بھی ان ہی اعضاء پر قیاس کیا ہے اور جب یہ اعضا مستثنیٰ ہوئے تو اُن کے متعلقات مثلاًانگوٹھی، چھلاّ یا مہندی،کاجل، وغیرہ کو بھی استثناء میں داخل ماننا پڑے گا۔ لیکن واضح رہے کہ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا سے صرف عورتوں کو بضرورت اُن کے کھلا رکھنے کی اجازت ہوئی۔‘‘(تفسیر عثمانی،صفحہ458-459)