ام الدرداء
ابوالدرداء ایک مشہور صحابی ہیں ۔ ان کی وفات کے بعد عون بن عبد اللہ بن عتبہ ان کی زوجہ ام الدرداء کے پاس آئے۔ انھوں نے ابو الدرداء کی زوجہ سے پوچھا کہ ابو الدرداء کا افضل عمل کیا تھا:مَا كَانَ أَفْضَلَ عَمَلِ أَبِي الدَّرْدَاءِ۔دوسری روایت میں ہے کہ اُنھوں نے پوچھا کہ ابو الدرداء کثرت سے کون سا عمل کرتے تھے:مَا كَانَ أَكْثَرُ عَمَلِ أَبِي الدَّرْدَاءِ۔ اس کے جواب میں اُن کی زوجہ ام الدرداء نے کہا کہ سوچنا اور عبرت پکڑنا: التَّفَكُّرُ وَالِاعْتِبَارُ(حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ208)۔
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی زوجہ کے بیان کے مطابق، اُن کی خاص عبادت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ سوچتے رہتے تھے اور چیزوں سے عبرت پکڑتے تھے۔ اس عبرت پذیری کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک بار ان کے سامنے ایک بیل گاڑی گذری۔ اس کو دو بیل کھینچ رہے تھے۔ درمیان میں ایک بیل بیٹھ گیا اور ایک بیل کھڑا رہا۔ اس پر گاڑی والے نے بیٹھنے والے بیل کو مارا۔ اس کو دیکھ کر ابوالدرداء نے کہا کہ:إِنَّ فِي هَذَا لَمُعْتَبَرًا (حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ209)۔یعنی،بے شک اس واقعہ میں ایک نصیحت ہے ۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبرت پذیری کیا ہے ۔وہ ہے دنیا کے واقعہ سے آخرت کا سبق لینا۔ ابو الدرداء کے سامنے بیل کے بیٹھنے کا جو واقعہ ہوا وہ ایک دنیوی واقعہ تھا۔ مگر اس دنیوی واقعہ سے انھوں نے ایک اخروی سبق نکالا۔ وہ یہ کہ جس طرح دنیا میں ڈیوٹی نہ کرنے پر سزا ملتی ہے، اسی طرح آخرت میں ان لوگوں کو خدا کی طرف سے سزادی جائے گی جنہوں نے خدا کے احکام کی خلاف ورزی کی۔
اس طرح اسلام کی پوری تاریخ میں اہل ایمان کا گھرمسلسل طور پر دعوت تعلیم کا مرکز بنا رہا۔ خواتین فطری طور پر اس مرکز میں بنیادی کردار کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلامی تاریخ کا تسلسل زیادہ تر دو اداروں کے ذریعہ قائم رہا ہے۔داخلی اعتبار سے گھر، اور خارجی اعتبارسے مسجد۔