17۔ نئی نسل کی تیاری
قرآن میں حضرت ابراہیم کی ایک دعا نقل کی گئی ہے۔ یہ دعا اُنہوں نے اس وقت کی تھی جب کہ انہوں نے عرب کے صحرا میں اپنی زوجہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو لا کر بسا دیا تھا۔ وہ دعا یہ تھی: اور جب ابراہیم نے کہا: اے میرے رب،اس شہر کو امن والا بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کر دیا۔ پس جس نے میری پیر وی کی وہ میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو توبخشنے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بے کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسا یا ہے۔ اے ہمارے رب، تا کہ وہ نماز قائم کر یں۔ پس تو لوگوں کے دل اُن کی طرف مائل کر دے اور اُن کو پھلوں کی روزی عطافر ما۔ تا کہ وہ شکر کریں(14:35-37)۔
یہ دعا ایک عظیم تاریخ کی یاد دلاتی ہے۔ یہ عظیم تاریخ ایک خاتون کے ذریعہ بنائی گئی جن کا نام ہاجرہ تھا۔ حضرت ابراہیم کے زمانہ میں شرک ہر طرف غالب آ گیا تھا۔ انسانی سماج پوری طرح مشرکا نہ کلچر کے تابع ہو چکا تھا۔ ہر بچہ جو اس سماج میں پیدا ہوتا وہ مشر کا نہ افکار کے تحت کنڈیشنڈ (conditioned) ہو جا تا تھا۔
اُسوقت اللہ کے حکم کے تحت حضرت ابراہیم نے یہ کیا کہ اپنی زوجہ اور اپنے چھوٹے بیٹے کو مشرکانہ آبادیوں سے دور ایک ویرانہ میں لے جا کر بسا دیا۔ یہاں فطرت کا سادہ ماحول تھا۔ یہاں مشر کا نہ تمدن کے تحت کنڈیشننگ(conditioning)کا امکان موجود نہ تھا۔ اس بے آمیز ماحول میں ایک نئی نسل بنی جو مکمل طور پر اپنی خدا داد فطرت پر قائم تھی۔ یہ وہی نسل ہے جو بنو اسماعیل کے نام سے تاریخ میں یاد کی جاتی ہے۔ اسی نسل میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور اسی نسل سے آپ کو وہ قیمتی افراد ملے جن کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے توحید کی پیغمبرانہدعوت کو فکری مرحلہ سے بلند کر کے ایک مکمل انقلاب تک پہنچا یا۔
ہاجرہ کا یہ واقعہ تمام عورتوں کے لیے ایک تاریخی نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ نمونہ یہ ہے کہ ہر عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ بہتر انسان بنائے۔ وہ ہر ایک نسل کے بعد دوسری نسل کی تیاری کا کام کرے۔ وہ انسانی سماج کو مسلسل طور پر بہتر انسان فراہم کرتی رہے۔