تقسیمِ کار کا اُصول
انسانی سماج میں جو سرگرمیاں جاری ہیں اُن کا ایک حصہ حکومت ہے جس کو ایڈمنسٹریشن کہا جاتا ہے۔ اس شعبہ کا کام انتظامِ ملکی کو سنبھالنا ہے۔ موجودہ جمہوری زمانہ میں اس شعبہ کے افراد عام طور پر پانچ سال کے بعد بدل جاتے ہیں ۔ ایک میعاد(term)کے خاتمہ پر اگلی میعاد کے لیے الیکشن ہوتا ہے۔ اور جولوگ الیکشن میں چُنے جاتے ہیں وہ اگلی میعاد کے لیے نظام مُلکی کا کام سنبھالتے ہیں۔
یہ کسی سماج کا سیاسی شعبہ ہے۔ اس شعبہ کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر اس پر ہے کہ ہرنئی میعاد پر آزادانہ اور منصفانہ(free and fair)الیکشن ہو۔ اور اس الیکشن میں جولوگ چُن کر آئیں وہ دیانت داری کے ساتھ اپنی حکومتی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔
اس شعبہ کے علاوہ سماج کی جو سرگرمیاں ہیں ان کو دو بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک شعبہ وہ ہے جس کو پیداواری سرگرمیاں(productive activities)کہا جاتا ہے۔ یعنی زراعت اور صنعت اور اس طرح کے دوسرے شعبے جو زندگی کی ضروریات کی تیاری اور فراہمی کے ذمہ دار ہیں ۔
دوسرا شعبہ وہ ہے جس کو تعلیمی سرگرمیاں(educational activities)کہا جا سکتا ہے۔ اس دوسرے شعبہ میں رسمی تعلیم(formal education)اور غیر رسمی تعلیم (informal education)دونوں ہی یکساں حیثیت سے شامل ہیں ۔ یہ شعبہ اپنے مختلف شاخوں کے ساتھ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ ہر بارنئی نسل کی تعلیم وتربیت کرے۔ تا کہ انسانیت کے قافلہ کو نسل درنسل تیار شدہ افراد ملتے رہیں ۔
تقسیم کار کے اصول کے مطابق، یہ ہونا چاہیے کہ حیاتِ انسانی کا پہلا شعبہ(پیداواری سرگرمیوں کا شعبہ)نیادی طور پر مردوں کے زیر انتظام ہو ۔ مرد اپنی خداداد صلاحیتوں کے صحت مند استعمال کے ذریعہ تعمیر انسانیت کا یہ کام کرتے رہیں ۔ وہ ہر دور میں انسانیت کی معاشی اور اقتصادی ضرورتوں کی تعمیر کی ذمہ داری ادا کرتے رہیں۔
زندگی کا دوسرا شعبہ( تعلیمی سرگرمیوں کا شعبہ)بنیادی طور پر عورت کی تحویل میں دے دیا جائے ۔ اس شعبہ کے سنبھالنے کے لیے عورتیں فطری طور پر زیادہ موزوں صلاحیت رکھتی ہیں ۔ وہ اس شعبہ کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر انجام دے سکتی ہیں۔
اس دوسرے شعبہ میں کئی چیز یں شامل ہیں۔ اسکول کی تعلیم، صحافت (Journalism)، ریڈیو، ٹیلی ویژن، لٹریچر، وغیرہ۔ یہی دوسرا شعبہ انسان سازی کا اصل ذمہ دار ہے۔ موجودہ دور میں نئے وسائل کی ایجاد نے اس شعبہ کو ہمیشہ سے زیادہ موثر بنادیا ہے۔ آج اس شعبہ کو جس طرح منظّم اور ہمہ گیرانداز میں چلایا جا سکتا ہے، اس طرح پچھلے کسی دور میں اُس کو چلانا ممکن نہ تھا۔
آج حالات کا تقاضا ہے کہ ضروری اخلاقی پابندیوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے عورتیں فارمل ایجوکیشن اور انفارمل ایجوکیشن کے تمام شعبوں کو سنبھالیں اور انسانیت کی ذہنی اور اخلاقی تعمیر کا کام کرنے میں لگ جائیں۔ وہ انسانی نسلوں کی معلم اور مربی بن کر اپنا وہ تاریخی رول ادا کریں جو قدرت نے اپنی تخلیقی نقشہ کے مطابق ان کے لیے مقدر کر دیا ہے۔ خواتین کے لیے یہ ایک اعلیٰ مشن بھی ہے اور اسی کے ساتھ ایک بہتر جاب بھی۔
اسلام کے مطابق،عورت اور مرد دونوں یکساں طور پر عزت اور احترام کےمستحق ہیں۔ حقوق اور فرائض کے معاملہ میں بھی دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر اس مساوات کا مطلب یہ نہیں کہ عورت اور مرد دونوں ایک ہی کام کریں ۔ ہوائی جہاز میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی ۔ اب اگر عورت اور مرد دونوں یہ اصرار کریں کہ ایک جو کام کرے گا وہی کام دوسرا بھی کرے گا تو جہاز پرواز نہیں کر سکتا۔ اور اگر وہ پرواز کی حالت میں ہو تو اس مساواتی نزاع میں جہاز تباہ ہوکر رہ جائے گا۔
حقیقت یہ ہے تقسیم کار فطرت کا ایک لازمی اُصول ہے۔ ہماری پوری زندگی تقسیم کار کے اسی اصول پر چل رہی ہے ۔تقسیمِ کار کا یہ اصول جو عمومی سماجی زندگی میں مطلوب ہے وہی عورت اور مرد کے معاملہ میں بھی مطلوب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل مطلوب چیز تقسیم کار ہے، نہ کہ صنفی مساوات (gender equality)۔
اسی فطری اُصول کو اختیار کر کے وہ متوازن نظام بنایا جاسکتا ہے جس کے اندر عورت اور مرد دونوں اپنے فرائض ادا کریں۔ اور انسانی سماج کسی تضاد کا شکار ہوئے بغیر کامیابی کے ساتھ مسلسل چلتا رہے۔